سانحہ اے پی ایس

Tragedy APS

Tragedy APS

تحریر : ثناء فاطمہ وڑائچ

16 دسمبر 2014 پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا جب دہشت گرد فرنٹیر کور کے لباس میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کی پچھلی طرف سے داخل ہو کے ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور پھر کمروں کا رخ کیا بچوں اور اساتذہ پر فائرنگ شروع کر دی اس سانحہ میں 9 اساتذہ 3 فوجی جوانوں کو ملا کر 114 ہلاکتیں ہوئیں 113 سے زائد زخمی ہوئے اور باقی بچ جانے والے بچوں کو افواج پاکستان نے بحفاظت باہر نکال لیا جبکہ ایک دہشت گرد نے خود کو بم سے اڑا دیایہ سانحہ آج بھی اک تازہ زخم کی مانند ہے ذہن میں خیال آئے آنکھوں کے سامے اس دھماکے کے مناظر آئیں تو آنکھیں نم ہو جاتیں کیسے ظلم اور درندہ صفت انسان تھے ایسے کے جو انسان کہلانے کے قابل تو کیا انسانیت کے نام پہ اک بدنما دھبہ ہیں۔

بچوں پہ تو جانور بھی ترس کھا جاتے اور وہ اشرف المخلوقات ہو کر بھی ننھی کلیوں کو مسل کر رکھ گئے وہ کلیاں جو اب کھل کر جی نا سکی زندگی کے خوبصورت رنگ نا دیکھ پائیں چھوٹے چھوٹے سے خواب لے کر وہ اس دنیا سے چل دیئیظلم و بربریت کا نشان بنے معصوم سے بچے حصول علم کی رہ پہ گامزن ننھے فرشتے جو گھروں سے خوشی خوشی سکول کی طرف روانہ ہوئے جنکی مائیں اپنے بچوں کے لیے کھانا تیار کیے بیٹھی بچوں کے لوٹ آنے کی منتظر تھی مگر کیا خبر تھی کہ آج انکے بچے اپنے پیروں پہ چل کر گھر واپس نہ آ سکیں گئے کسے معلوم تھا کہ آج پھر شمر و یزید جیسے لوگ اک بار پھر سے بچوں پہ اپنا زور آزمائیں گئے ذرا سوچیے! کہ کیسے بچے ڈر کے مارے سہم گئے ہوں گئے کیسے انہوں نے اپنے ساتھیوں دوستوں بہن بھائیوں اساتذہ کو خون میں لت پت تڑپتا دیکھا ہوگا کیسے ان ننھے مجاہدوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنی سی کوشش کی ہو گی جو گھر سے قلم کتاب بستہ لے کر گئے تھے خالی ہاتھ نہتوں بچوں نے کیسے خود کو ان ملعونوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تگ و دو کی ہو گی۔

کیا گزری ہو گی اس ماں پپ جس کا صرف اک ہی بچہ تھا اور وہ بھی اس حادثے کا شکار ہو گیا۔کیا وہ ماں آج تک خود کو معاف کر پائی ہو گی جس نے اپنے بچے کے نا چاہنے پر بھی زبردستی سکول بھیج دیا اور واپس بچے کی لاش آئی ہو گی اب تک اس ماں کے دل میں اک سسک ہو گی کہ کاش میں اپنے بچے کو سکول نا بھیجتی میں اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو موت کے منہ میں نہ دھکیلیتی کیا محسوس کرتے ہونگے وہ سبھی والدین جنکے بچے یا تو شہید ہو گئے یا بچ کر بھی آج تک اس سانحے کو ذہن سے مٹا نہیں اسی سانحے کی جکڑ میں ہیں یا وہ بچے جو اس سانحے میں عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔

وہ چھوٹی سے 6 سالہ بچی خولہ جو سکول کے پہلے دن ہی زندگی سے ہاتھ بیٹھی وہ لڑکا جسکے ماں باپ نے اسکی سالگرہ کے دن اسے مٹی کے حوالے کر دیا وہ نوجوان جسے اپنی ماں کے ہاتھ کے کھانے بہت پسند تھے مگر وہ کھانا بنا کا بنا رہ گیا ان کھانوں کا شوقین دہشتگردوں کی بربریت کا شکار ہو گیا وہ چھوٹا معصوم جس نے کہا کہ میں جب یہ ہوتے دیکھا تو بینچ کے نیچے چھپ گیا سانس روک لی تا کہ ان لوگوں کو لگے کہ میں بھی مر گیاآہ! جب ٹی وی پہ ان بچوں کی تصاویر کو دیکھایا گیا جن میں کوئی بچہ ہنستا مسکراتا ہوا اپنے والدین کے ساتھ کھڑا کوئی کھیل کود میں مصروف کوئی پالتو جانوروں کے ساتھ فتح کا نشان بنائے کھڑا تھا مگر اب صورت حال کچھ اور تھی کچھ بچوں کے جسم کے چھیتڑے بن چکے تھے کچھ سفید رنگ کے یونیفارم کو لال کیے ہوئے بیحس و حرکت پڑے ہ ہوئے تھے میرا دل دماغ آج تک اس سانحہ کے حصار سے نہیں نکل پایا یقین نہیں آتا کوئی کیسے معصوم پیارے پیارے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کر سکتا ہے اللہ پاک سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے تمام بچوں کو جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور انکے ورثاء کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

Sana Fatima Waraich

Sana Fatima Waraich

تحریر : ثناء فاطمہ وڑائچ