ٹرمپ کے مشرقی وسطٰی امن منصوبے پر یورپی یونین کی تنقید

Josep Borrell

Josep Borrell

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) یورپ یونین نے مشرق وسطی میں قیام امن کے امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک بیان کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے حل کے لیے پیش کیا جانے والا یہ منصوبہ بین الاقوامی معاہدوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

یورپی یونین نے مشرقی وسطی میں امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی ہے کہ ان کی تجویز اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے ماضی میں ہونے والے معاہدوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کے سربراہ جوزیف بوریل نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل کے مابین براہ راست بات چیت پر زور دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے گزشتہ ہفتے ایک منصوبہ پیش کیا تھا اور اسے “صدی کا معاہدہ” قرار دیا تھا۔ اس منصوبے میں خود مختار فلسطین ریاست کی بات تو کی گئی تاہم اس کے ساتھ ہی مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں تعمیر کی گئی بستیوں اور غرب اردن کو اسرائیل کے کنٹرول میں دینے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔ فلسطین نے اس منصوبے کے اجرا سے قبل ہی اسے مسترد کر دیا تھا اور منظر عام پر آنے کے بعد اسے ناقابل قبول بتایا تھا۔

یورپی یونین میں خارجہ امور کے سربراہ جوزیف بوریل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر متفقہ پیمانوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ انہوں نے فریقین کے مابین براہ راست بات چیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ حل نہ ہونے والے تصفیہ طلب مسائل فریقین آپس میں براہ راست مذاکرات سے حل کریں۔ کسی بھی ایسی یکطرفہ کارروائی سے گریز کریں، جس سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔”

فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے تعلق سے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسی بستیوں کو ضم کرنے کی جانب اگر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اسے چیلنج کیا جائے گا، ” غرب اردن اور مغربی کنارے کے دیگر حصوں کو ضم کرنے کے امکانات سے متعلق بیانات پر ہمیں خاص طور پر تشویش ہے۔”

اسرائیل، جو صدر ٹرمپ کے منصوبے کا حامی ہے، نے یورپی یونین کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل وزارت خارجہ کے ترجمان لیور ہیئیت نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ” کتنے افسوس کی بات ہے کہ یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزیف بوریل نے عہدہ سنبھالتے ہی اور ایران سے ملاقات کے فوری بعد اسرائیل کے لیے دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے، بڑی عجیب بات ہے۔” انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پالیسیوں کو متعارف کرانے سے کسی بھی عمل میں یورپی یونین کا کردار محدود ہوکر رہ جائے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجیمن نتن یاہو نے امریکی صدر کے منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا لیکن فلسطینی حکام اسے ‘فرسودہ’ کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب ٹرمپ نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تو یورپی یونین نے کہا تھا کہ وہ اس کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے رد عمل کا اظہار کرے گی۔ ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کو کسی بھی معاملے پر رد عمل سے قبل اتفاق رائے کے لیے سبھی سے صلاح و مشورہ کرنا پڑتا ہے اس لیے عموماً اس کا رد عمل تاخیر سے آتا ہے۔