تیونس میں فوری طور پر نئی حکومت قائم کی جائے، فرانس

 Protest

Protest

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس نے بھی مغربی ممالک کے اس مطالبے کو دہرایا ہے کہ تیونس میں سیاسی بحران کو جلد از ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف نے صدر پر بغاوت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ پریس کی آزادی کے حوالے سے بھی کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

فرانس نے بھی تیونس کے صدر قیس سعید سے فوری طور پر ایک نئی حکومت کے قیام پر وزر دیا، جنہوں نے ملک کے انتظامی اختیارات اس وقت اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔ یورپی یونین اور امریکا پہلے ہی صدر قیس سعید سے ملک میں استحکام لانے کے لیے جمہوری اصولوں پر قائم رہنے کی بات کہہ چکے ہیں۔

اتوار کے روز تیونس کے صدر قیس سعید نے اپنے خصوصی آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کو برخاست کرنے کے ساتھ ہی پارلیمان کو بھی معطل کر دیا تھا۔ حزب اختلاف نے ان کے اس اقدام کو بغاوت قرار دیا ہے۔ اس کے بعد سے ہی صدر کی جانب سے کئی اہم اعلی حکام کو برخاست کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں سرکاری ٹی وی چینل کے سربراہ بھی شامل ہیں۔

فرانس کے وزیر خارجہ زاں ایئس لا درین نے تیونس کے اپنے ہم منصب عثمان جراندی سے فون پر بات چیت کے دوران کہا، ”قانون کی حکمرانی اور امن و سکون کا قیام بہت اہم ہے۔ تیونس کے جمہوری اداروں کو اس بات کی فوری اجازت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ معمول کے مطابق کام کر سکیں۔”

اطلاعات کے مطابق بات چیت کے دوران فرانس کے وزیر خارجہ نے ملک میں، ”فوری طور ایک نئے وزیر اعظم کی تقرری اور ایک ایسی نئی حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا ہے جو تیونس کی عوام کی امیدوں پر کھرا اتر سکے۔”

اس سے قبل یورپی یونین اور امریکا نے بھی تیونس کے صدر قیس سعید سے استحکام لانے کے لیے جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی بات کہی تھی۔ لیکن بیشتر عرب ممالک نے صدر قیس کے اقدام کی نکتہ چینی کیے بغیر تیونس کی عوام کے ساتھ رہنے اور ان کی حمایت کرنے کا دعوی کیا ہے۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سعودی سلطنت، ”ہر اس چیز کے ساتھ ہے جس سے تیونس کی بہنوں اور بھائیوں کی سلامتی اور استحکام میں اضافہ ہو۔” قطر کی حکومت نے تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا۔

مصر نے تیونس کی صورت حال کے حوالے سے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے تاہم مصر کا سرکاری میڈیا تیونس میں جمہوریت مخالف آواز کو یہ کہہ کر ہوا دیتا رہا ہے کہ صدر قیس سعید نے تیونس کو اسلامی جماعتوں سے بچانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کیے ہیں۔ مصر تیونس کی النہضہ سیاسی جماعت کو بھی اخوان المسلمین کا ہی ایک حصہ سمجھتا ہے۔

تیونس کے صدر قیس سعید نے 25 جولائی کو ملک کے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا تھا کہ اب وہ ملک کے انتظامی اختیارات خود ہی سنبھالیں گے۔ یہ نئی سیاسی معرکہ آرائی حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے بعد شروع ہوئی تھی۔

صدر قیس سعید نے تیونس کی پارلیمان کو بھی آئندہ ایک ماہ تک کے لیے معطل کرنے اور تمام نائبین کے اختیارات کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فوری خطرے کے پیش نظر آئین کی دفعہ 80 کے تحت انہیں ایسے احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

لیکن پارلیمان کے اسپیکر راشد غنوشی نے صدر پر، ”انقلاب اور ملکی آئین کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا تھا۔ ” غنوشی کی اعتدال پسند اسلامی جماعت النہضہ نے تیونس کی عوام سے اس ”بغاوت” کے خلاف مظاہرہ کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔

گزشتہ روز صدر نے سرکاری ٹی وی چینل کی سربراہ کو برطرف کرنے کے بعد اپنے ایک حامی کو سربراہ مقرر کر دیا جبکہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ فوج نے سرکاری چینل کے دفتر کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل سکیورٹی فورسز نے الجزیرہ ٹی وی چینل کے مقامی دفتر پر بھی چھاپے کی کارروائی کی تھی۔

اس دوران بدھ کے روز ہی سرکاری وکلا نے اعلان کیا ہے کہ وہ النہضہ اور دیگر دو سیاسی جماعتوں کی بیرونی فنڈنگ کے بارے میں تفتیش کر رہے ہیں۔