تیونس: پرتشدد مظاہرے، سینکڑوں گرفتار، فوج تعینات

Protest

Protest

تیونس (اصل میڈیا ڈیسک) اقتصادی مشکلات سے دوچار تیونس میں کورونا وائرس کے مدنظر حکومت کی جانب سے لاک ڈاون نافذ کیے جانے کے بعد ملک بھر میں بد امنی پھیل گئی ہے۔

شمالی افریقی ملک تیونس کے دارالحکومت اور متعدد دیگر شہروں میں مسلسل تیسری رات بھی پرتشدد واقعات جاری رہے۔ تیونس کے حکام نے اب تک چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تیونس میں عوامی انقلاب’عرب بہار‘ کا ایک عشرہ سے زیادہ گزرچکا ہے لیکن سیاسی اصلاحات نا ہونے کی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے۔

وزارت دفاع کے ترجمان محمد ذکری نے پیر کے روز بتایا کہ شمال میں بزرت سے لے کر مشرق میں سوسہ اور وسطی تیونس میں قسرین اور سیلانہ تک میں فوج تعینات کر دی گئی ہے۔

پرتشدد واقعات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جمعرات کے روز تیونسی حکام نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے مقصد سے ملک گیر لاک ڈاون کا اعلان کیا۔ اسی روز ‘عرب بہار‘ کے دوران سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے معزول کرنے کی دسویں سالگرہ بھی تھی۔

تیونسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ پیر کے روز حالات نسبتاً ‘پرسکون‘ رہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان خالد حایونی نے بتایا کہ اب تک مجموعی طورپر 632 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں پندرہ، بیس اور پچیس برس کی عمر کے نوجوانوں کے گروپ شامل ہیں جنہوں نے سکیورٹی فورسز کی گشت کو روکنے کے لیے سڑکوں پر ٹائر جلائے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو پولیس پر پتھراو کرنے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا”ان مظاہروں کا حتجاجی تحریکوں سے، جن کی قانون اور آئین میں ضمانت دی گئی ہے، کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ احتجاجی مظاہرے بالعموم دن کی روشنی میں کیے جاتے ہیں اور ان میں کسی طرح کی مجرمانہ سرگرمیاں شامل نہیں ہوتی ہیں۔”

سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ دارالحکومت تیونس میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تمام گرفتار مظاہرین کو فوراً رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایمنسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا”ایسا کوئی قانون نہیں جو سیکورٹی فورسز کی غیر ضروری تعیناتی اور حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہو۔”

تیونس میں غربت، بدعنوانیوں اور بے انصافیوں کے خلاف سن 2010 کے اواخر میں عوامی انقلاب ‘عرب بہار‘ برپا ہوئے ایک عشرہ ہونے کو ہے لیکن سابق ڈکٹیٹر صدر زین العابدین کی حکومت کے خاتمے کے دس سال بعد بھی شمالی افریقہ میں واقع اس مسلم عرب ملک کی معیشت میں بہتری نہیں آئی ہے۔ اور عوام میں عدم اطمینانی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

حالانکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران تیونس میں جمہوریت کی جانب پیش قدمی ضرور ہوئی ہے۔ اس دوران کئی بار صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں اور اقتدار کی منتقلی کا عمل بھی پرامن انداز میں مکمل ہوا ہے۔ تاہم ملک کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے۔ نوجوانوں کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی بے روزگار ہے۔ سن 2019 میں جی ڈی پی گھٹ کر نو فیصد تک پہنچ گئی اور روزمرہ کی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ شہری بدحال عوامی خدمات کی وجہ سے بھی مایوس ہیں۔

کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کی اقتصادی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ تیونس میں سیاحت کی اہم صنعت تباہ ہوگئی ہے۔ جو سن2015 میں جہادیوں کے تباہ کن حملوں کی وجہ سے پہلے سے ہی مسائل سے دوچار تھی۔

تیونس میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 77 ہزار سے زائد ہے اور اب تک 5600 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔