ترک وطن اور پناہ کی تلاش: یورپی یونین میں انسانی حقوق کی صورت حال

Immigrants

Immigrants

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) گنجائش سے کہیں زیادہ بھرے ہوئے مہاجر کیمپ، یورپی یونین کے رکن ممالک میں تقسیم اور برسوں سے پناہ کے متلاشی افراد کے لیے مشترکہ پالیسی کی تلاش، یہ سب عوامل کس حد تک انسانی حقوق کی پامالی کے ذمہ دار ہیں؟

اس بارے میں تحقیق پر مبنی ایک نیا جائزہ سامنے آیا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک چند سیاسی شعبوں میں بھی اتنے ہی بٹے ہوئے ہیں جتنا کہ ترک وطن یا ہجرت اور سیاسی پناہ کی تلاش کے موضوع پر ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہنگری جیسے ممالک تارکین وطن کی کم سے کم تعداد کو اپنے ہاں پناہ دینے پر تیار ہیں جبکہ یورپی یونین میں شامل دیگر ریاستیں اپنی سرحدوں پر خود کو ان مسائل کے ساتھ بالکل تنہا چھوڑ دیے جانے کی شکایت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کے بارے میں کیا لائحہ عمل اور پالیسی اختیار کی جانا چاہیے؟ اس بارے میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین واضح اختلافات 2015 ء میں ہی سامنے آ گئے تھے جب لاکھوں تارکین وطن نے یورپ کی سرزمین میں پناہ لینے کے لیے قدم رکھنا شروع کیے تھے۔ تب سے یورپی یونین میں ترک وطن اور پناہ کے متلاشی انسانوں سے متعلق پالیسی کو بہتر طریقے سے منظم بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ ستمبر میں یورپی کمیشن نے پناہ کے یورپی نظام میں اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی۔

یورپی یونین میں شامل ریاستیں ہمیشہ کشیدہ صورتحال میں بھی آگے بڑھنے کے لیے کوئی نا کوئی راہ نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ہجرت سے جڑے معاملات کو منظم کرتے ہوئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام بھی ملحوظ رہے۔

اس حوالے سے ‘جرمن انسٹیٹیوٹ فار ہیومن رائٹس‘ نے جرمنی )کی مارکیٹر فاؤنڈیشن( کے مالی تعاون سے ایک جائزہ مرتب کرایا۔ (Remap) کے عنوان سے شائع ہونے والے اس جائزے میں خاص طور سے اس امر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یورپی یونین کی تارکین وطن سے متعلق پالیسی اور انسانی حقوق کہاں کہاں متصادم نظر آتے ہیں۔

جرمنی کی ژینا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اس جائزے کے شریک مصنف فریڈرک فان ہاربو نے ڈوئچے ویلے کو اس بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ”یورپی یونین کو خود کو انسانی حقوق کے فروغ کے لیے سرگرم ایک تنظیم کی حیثیت سے پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘

اس حقیقت کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ یورپی یونین کی مہاجرت کی پالیسی میں انسانی حقوق کا ایک اہم کردار اور مقام ہے۔ اس کی ایک مثال یورپی یونین کی سرحدی اور ساحلی محافظ ایجنسی فرنٹیکس بھی ہے۔ فریڈرک فان ہاربو کے مطابق 2018 ء میں یورپی بارڈر پروٹیکشن ایجنسی کو وسیع پیمانے پر نئے اختیارات دیے گئے اور ‘ہیومن رائٹس میکینزم‘ بھی ان قواعد و ضوابط میں اہم حصے کے طور پر شامل تھے۔ مثال کے طور پر یہ ممکن بنایا گیا کہ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں اس ایجنسی کو اطلاع دی جا سکتی ہے نیز اس میں عدم تلافی کے اصول کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ اس ضابطے کے تحت پناہ کے متلاشی ایسے افراد جن کے آبائی ممالک میں بدامنی ہو اور جہاں ان پر تشدد اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا خطرہ ہو، انہیں وہاں واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ تاہم فان ہاربو کا کہنا ہے کہ یہ ضوابط ابھی تک ایک ‘کند ہتھیار‘ کی مانند ہیں، یعنی وہ تاحال مکمل طور پر قابل نفاذ نہیں ہیں۔

Remap اسٹڈی کے مطابق یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یورپی یونین انسانی حقوق کی پاسداری کے جتنے بھی دعوے کرے، یونین کی بیرونی سرحدوں پر ایسا نہیں ہو رہا۔ فریڈرک فان ہاربو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کے بعد جب کسی کی سیاسی پناہ کی درخواست دائر ہو جاتی ہے، تو اس کے کیس کو ایک منظم اور معیاری طریقے سے چلانے کا طریقہ کار موجود ہے، اور اس کے لیے تحفظ کا مکمل نظام بھی موجود ہے۔ یورپی یونین کے تمام رکن ممالک ان حقائق سے واقف بھی ہیں مگر انہوں نے پناہ حاصل کرنے کے نظام تک پناہ کے متلاشی افراد کی رسائی کو محدود رکھنے کے لیے اپنی علیحدہ علیحدہ حکمت عملی بنائی ہوئی ہے۔ یہ کام مثال کے طور پر کسی تیسرے ملک کے تعاون سے بھی کیا جا رہا ہے، جیسے کہ لیبیا پناہ کے متلاشی تارکین وطن کے بحری جہازوں اور کشتیوں کو یورپ تک پہنچنے سے روکنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔