ایغور معاملے پر برطانیہ اور چین کے مابین کشیدگی

Protest

Protest

سنکیانگ (اصل میڈیا ڈیسک) چینی صوبہ سنکیانگ میں رہنے والے اقلیتی ایغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پر برطانیہ اور چین کے درمیان باہمی تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

برطانیہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث چینی حکام پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے تو دوسری طرف چین نے اس طرح کے کسی اقدام کا ’سخت جواب‘ دینے کی دھمکی دی ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے الزام لگایا ہے کہ بیجنگ مغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں رہنے والی ایغور آبادی کے انسانی حقوق کی ’سنگین اور بڑے پیمانے پر‘ خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے جو چینی حکام ذمہ دار ہیں ان کے خلاف پابندی عائد کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ڈومنک راب کا کہنا تھا کہ ایغور مسلم عورتوں کی بڑے پیمانے پر نس بندی اور زیادتی کی بھی خبریں ہیں۔ ” انتہائی پریشان کن ہے اور نس بندی سے لے کر تطہیری کیمپوں کے متعلق ہماری یادوں کو تازہ کرتی ہیں، جسے ہم نے ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ چین کے ساتھ ہمارے مثبت اوراچھے تعلقات ہیں لیکن ہم اس طرح کے رویے کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ اپنے حلیفو ں کے ساتھ اس معاملے پر مناسب کارروائی کرے گا۔

برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث چینی حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے لیے عوام کی طرف سے دباو ڈالا جارہا ہے۔ اس سے متعلق ایک عرضی پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے دستخط کیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اس پر پارلیمان میں بحث کرائی جاسکتی ہے۔

دوسری طرف برطانیہ میں چینی سفیر نے کہا ہے کہ اگر چینی حکام کے خلاف برطانیہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو چین بھی اس کا ’سخت جواب‘ دے گا۔ چینی سفیر لیو شیاومنگ نے کہا”اگر برطانیہ چین کے کسی بھی ایک شخص پر پابندی عائد کرے گا تو چین یقینی طور پر سخت ردعمل ظاہر کرے گا۔“

انہوں نے کہا”آ پ نے دیکھا ہوگا کہ چین اور امریکا کے درمیان کیا ہوا۔ میں نہیں چاہتا کہ جس طرح چین اور امریکہ کے درمیان ہوا ویسا ہی چین اور برطانیہ کے تعلقات کے مابین ہو۔“ لیو شیاومنگ نے کہا کہ ’برطانیہ کو امریکیوں کی دھن پر رقص کرنے کے بجائے اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔‘

چینی سفیر نے چین میں کسی بھی طرح کے تعذیبی کیمپ کے متعلق خبروں کو ’فرضی‘ بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایغور مسلمانو ں کے ساتھ ملک کے نسلی گروپ کے قوانین کے مطابق ہی سلوک کیا جارہا ہے۔ چینی سفیر کا کہنا تھا”سنکیانگ میں کسی طرح کا تطہیری کیمپ نہیں ہے۔ چین کے اوپر بہت سارے جھوٹے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔“

لیوشیاومنگ نے کہا کہ ایغور مسلمانوں کی نسلی تطہیر کی خبریں بے بنیاد ہیں اور کہا کہ”وہ دوسرے نسلی گروپ کے لوگوں کے ساتھ پرامن اور تال میل کے ساتھ رہ رہے ہیں۔“ انہوں نے کہاکہ 2015 اور 2018 کے درمیان ایغوروں کی آبادی میں 84 فیصد کی گراوٹ کا جو دعوی کیا جارہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ سنکیانگ میں ایغوروں کی آبادی میں گزشتہ چار عشروں کے دوران دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

خیا ل رہے کہ چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے کو برطانیہ کے سپرفاسٹ 5جی موبائل نیٹ ورک کے منصوبے سے روک دینے کے برطانیہ کے حالیہ فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تلخی پیدا ہوگئی ہے۔ ہانگ کانگ کے معاملے پربھی برطانیہ اورچین کے درمیان کشیدگی ہے۔ ہانگ کانگ میں چین کی طرف سے متنازعہ نیشنل سکیورٹی قانون نافذ کیے جانے کے بعد برطانیہ نے اپنے ملک کے پاسپورٹ کے اہل 30 لاکھ لوگوں اپنے یہاں رہنے کی تجویز پیش کی ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدے کی بنیاد پر برطانیہ نے 1997 میں نیم خود مختار ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کردیا تھا۔