ایغور مسلم اقلیت کے حقوق: چین پر مغربی دباؤ کا خیر مقدم

Protest

Protest

سنکیانگ (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں بسنے والی ایغور مسلم برادری نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے چینی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس برادری نے امید ظاہر کی ہے کہ اس دباؤ کے کمیونسٹ چین کی ‘جابرانہ پالیسی‘ پر اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم ان پاکستانیوں نے، جن کی رشتہ داریاں ایغور کمیونٹی میں ہیں یا جنہوں نے چین کے اس صوبے میں شادیاں کر رکھی ہیں، ایسی ‘خوش فہمیوں‘ پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایسے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ بیرونی دباؤ بیجنگ کو مشتعل کر سکتا ہے اور وہ سنکیانگ میں مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاون سخت تر بھی کر سکتا ہے۔

مغربی میڈیا چین پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے ایک ملین سے زائد ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جہاں وہ ان کی ذہن سازی کرتا ہے اور ان اقلیتی باشندوں سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا جزوی طور پر یہ دعویٰ بھی ہے کہ چین ایغور مسلم اقلیت کی ثقافت، تہذیب اور رسم و رواج کو کچل رہا ہے اور اس نے اپنے ہاں ان اقلیتوں پر مذہبی اور سماجی پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں۔

حالیہ دنوں میں امریکی انتظامیہ نے اس مسئلے کو بھر پور انداز میں اٹھایا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت کئی حکومتی اہلکار سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔ تاہم بیجنگ ان تمام دعووں کی سختی سے تردید کرتا ہے اور چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اور وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اشتراکی نظام حکومت والے اس ملک میں ایغور اور دوسری مسلم قومیتوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے سخت اقدامات صرف شدت پسندوں کے خلاف کیے ہیں، جنہوں نے کچھ برس پہلے وہاں نہ صرف دہشت گردانہ کارروائیاں کیں بلکہ چین کے ریاستی مفادات کو بھی نقصان پہنچایا۔

پاکستان میں بسنے والی ایغور برادری کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی تنقید نے چینی حکمرانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ عمر ایغور ٹرسٹ کے سربراہ عمر ایغور نے چین پر مغربی تنقید کے تنقید کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”امریکی اقدامات پر پاکستان میں چینی سفارت خانہ اور بیجنگ میں ملکی حکام دونوں ناراض ہیں۔ مسلم دنیا نے تو ہماری آواز سنی نہیں۔ سعودی عرب سمیت تمام ممالک نے سنکیانگ میں ہونے والے مظالم کو نظر انداز کیا ہے۔ لیکن ہمیں خوشی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ہماری آواز سنی۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک بھی اس ظلم و ستم کے خلاف بول رہے ہیں۔ میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں چینی ظلم و ستم سے نجات دلائیں۔‘‘

عمر ایغور کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے ستر افراد کا کچھ پتا نہیں کہ انہیں چینی حکام نے کہاں رکھا ہوا ہے، ”ہمارے نو رشتہ دار سن 2016ء میں والدہ کی وفات پر تعزیت کرنے آئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے خاندان کے درجنوں افراد کو اٹھا لیا گیا، اور انہیں حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ اگر ہم وہاں کسی کو کوئی فون کال کریں، تو اگلے دن وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ ہمارے لیے تو اس ظلم و ستم کے خلاف ٹرمپ ہمارے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ایغور خاندان آباد ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد راولپنڈی میں مقیم ہے، جب کہ گلگت بلتستان، لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں بھی اس برادری کے سینکڑوں افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے اکثریت پاکستانی شہریت حاصل کر چکی ہے لیکن وہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے آج بھی کوشاں ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والےاڑتیس سالہ حسن ترکستانی، جو گلگت بلتستان اور راولپنڈی میں سنکیانگ کی روایتی کھانوں کے ہوٹل چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی، بھابھی اور ان کے بچوں سمیت درجنوں افراد کو چینی حکام نے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں ایغور باشندوں کو حراستی مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔ میرے رشتہ داروں کو اس لیے اٹھایا گیا کہ ان میں سے کچھ ماضی میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے اور کچھ نے دیگر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ترکی اور پاکستان کے سفر کیے تھے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پر امن طریقے سے اپنے مذہبی فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

حسن ترکستانی کا کہنا تھا کہ مغرب کی طرف سے آواز اٹھائی جانا اچھا قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، ”میرے خیال میں امریکا اور دوسرے ممالک کو چین پر معاشی اور سفری پابندیاں لگانا چاہییں۔ جب چین کو معاشی نقصان ہو گا اور چینی باشندوں کو سفر کی دشواریاں پیش آئیں گی، تو پھر بیجنگ کوسنکیانگ سے متعلق اپنا رویہ بہتر بنانا ہی پڑے گا۔‘‘

پاکستان کا شمالی علاقہ گلگت بلتستان تاریخی طور پرسنکیانگ کے قریب رہا ہے اور اس علاقے کے درجنوں افراد نے سنکیانگ میں ایغور خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ ایسے ہی افراد میں اکتالیس سالہ تاجر ابرار علی بھی شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چین بیرونی مداخلت کو سخت نا پسند کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ”دنیا کو معلوم ہے کہ امریکا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ مسئلہ سنکیانگ کا نہیں بلکہ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کا ہے۔ میرے خیال میں امریکی مداخلت سے چینی مسلمانوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور چین سنکیانگ میں کریک ڈاون سخت تر کر سکتا ہے۔‘‘

ابرار علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میری بیوی بھی سنکیانگ میں ہے۔ اس کے رشتہ داروں کو بھی چینی حکام نے حراست میں لے لیا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں میں چین کی پالیسی کچھ نرم ہوئی ہے۔ چینی صدر نے بھی اس پالیسی کو نرم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس لیے اب اگر بیرونی مداخلت ہوئی، تو چین زیادہ سختی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایغور مسلمانوں کو کسی مداخلت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘‘