ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی سلوک پر تازہ امریکی کارروائی

USA - China

USA – China

سنکیانگ (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے ایغور مسلمانوں کے ساتھ مبینہ غیرانسانی سلوک کے خلاف اپنے تازہ ترین اقدامات کے تحت سنکیانگ میں واقع چار کمپنیوں کے ذریعہ تیار کیے جانے والے اشیاء کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

امریکا کا الزام ہے کہ سنکیانگ میں واقع یہ کمپنیاں اقلیتی ایغور مسلمانوں کو جبری مزدوری کے لیے مجبور کرکے ان سے اپنا سامان تیار کرواتی ہیں اس لیے ان لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی وجہ سے وہاں تیارہونے والی اشیاء مثلاً کپڑوں، کمپیوٹر کے پرزوں اور دیگر سامان کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ کسٹم اور سرحدی تحفظ (سی بی پی) نے شمال مغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں واقع ان کمپنیوں کے ذریعہ تیارکیے جانے والے کپاس، کپڑے اور کمپیوٹر کے پرزوں کی درآمدات کو روک دینے کا حکم دیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ تاہم چین اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں شدت پسند نظریات کے حامل افراد کو اصلاح کے لیے رکھا گیا ہے۔

سی بی پی نے بالوں سے تیار کیے جانے والے مصنوعات کی درآمدات پر بھی روک لگادی ہے، جس کے بارے میں امریکی حکام کا خیال ہے کہ یہ ایغوروں سے جبری مزدوری کے ذریعہ تیار کرائے جاتے ہیں۔

چین کا دعوی ہے کہ وہ ووکیشنل ٹریننگ پروگرام کے تحت حراست میں لیے گئے لوگوں کو ان کارخانوں میں بھیجتا ہے تاکہ وہ کام کے سلسلے میں عملی تربیت حاصل کرسکیں۔

سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔

امریکی داخلی سلامتی کے کارگزار نائب وزیر کین کوسینیلی نے تاہم چین کے اس دعوے کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا” یہ ایک حراستی کیمپ ہے، ایک ایسی جگہ ہے جہاں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور جہاں انتہائی تکلیف دہ حالات میں انہیں کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جہاں نہ انہیں کوئی سہولت حاصل ہے اور نہ ہی آزادی۔ یہ موجودہ زمانے کی غلامی ہے۔“

خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی معاملات اور کورونا وائرس کے سلسلے میں بیجنگ پر صدر ٹرمپ کے الزامات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ پچھلے ایک برس کے دوران چین سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر روک لگانے کے آٹھ احکامات جاری کرچکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے دنوں میں ایسے مزیدا حکامات جانے کیے جانے کا امکان ہے۔

امریکا کی طرف سے پیر کے روز جاری کردہ تازہ ترین احکامات میں کہا گیا ہے ”بین الاقوامی برادری کو واضح پیغام ہے کہ ہم امریکا کی سپلائی چین میں جبراً مزدوری کرنے کے غیر قانونی، غیر انسانی اور استحصالی رویے کو برداشت نہیں کریں گے۔”

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ”ٹرمپ انتظامیہ یوں ہی خاموش کھڑی دیکھتی نہیں رہے گی اور ان غیر ملکی کمپنیوں کو اپنے یہاں آنے کی اجازت نہیں دے گی جو ستائے ہوئے مزدوروں سے جبراً کام کراتی ہیں اور ساتھ ہی ان امریکی کاروباریوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں جو انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہیں۔”