یوکرین بحران: کییف پر تازہ حملے کی تیاری اور تباہ کاریاں

Ukraine Crisis

Ukraine Crisis

یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) یوکرین کے دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ روسی فوج کییف پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس دوران حملوں میں مزید شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ آج ہی روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہونے والا ہے۔

یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے سات مارچ پیر کے روز اپنے تازہ بلیٹن میں کہا ہے کہ روس کی فوج دارالحکومت کییف پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ محکمہ دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی فوجیوں کا مقصد کییف کے مضافات میں واقع دو شہروں ارپن اور بوشا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

بیان کے مطابق روس کی مسلح افواج برووسکی اور بوریسپل اضلاع سے ہوتے ہوئے کییف کے مشرقی مضافات تک پہنچ کر دفاعی حکمت عملی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

برطانوی دفاعی عہدیداروں کے خیال میں روسی افواج کو گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اس کی فوج یوکرین کی سخت مزاحمت اور ناقص لاجیسٹکس سپورٹ کے باعث پریشان ہے۔ لیکن یوکرائنی کمانڈروں نے متنبہ کیا ہے کہ روسی افواج دوبارہ منظم ہو رہی ہیں اور دارالحکومت کییف پر مکمل حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

اتوار کے روز یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ 52 ممالک کے تقریباً 20,000 سے زیادہ افراد نے یوکرین میں رضاکارانہ طور لڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کے متعدد شہروں پر شیلنگ میں اضافہ کر دیا ہے اور خارکیف، چرنیہیو اور میکولائیو جیسے شہروں پر شدید حملے جاری ہیں۔ یوکرین کے صدارتی دفتر کا کہنا ہے کہ لڑائی کے سبب کئی لاکھ یوکرینی باشندوں کو فوری طور پر نکالنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس وقت آٹھ خطوں میں کئی درجن قصبوں کی صورتحال تباہ کن ہے۔

یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور کے لیے جلد ملاقات کی توقع ہے اور فریقین کے مطابق یہ سات مارچ پیر کو ہی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بات چیت کس مقام پراور کس وقت ہو گی۔

اس سے قبل دونوں ملکوں کے وفود آخری بار بیلاروس میں امن مذاکرات کے لیے دو بار ملاقات کرچکے ہیں جس میں میں ماریوپول اور وولونواخا سے انخلاء کی اجازت دینے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محفوظ راہداریاں قائم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔

تاہم اتوار کے روز ماریوپول کو خالی کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی اور روس اور یوکرین دونوں نے ہی اس کے لیے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی روسی تیل کی درآمدات پر پابندی لگانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس دوران وائٹ ہاؤس اور کانگریس روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے مقصد سے مشترکہ کوششوں کے تحت صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔

ادھر نیوزی لینڈ نے بھی روس پر پابندیوں کی ایک نئی فہرست کا اعلان کیا ہے جس میں درجنوں روسی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نئے قوانین کے تحت تقریباً 100 بڑی روسی کاروباری شخصیات پر سفری پابندی عائد ہوں گی۔

ان نئے اقدام سے ماسکو میں رجسٹرڈ تمام بحری کشتیوں، جہازوں اور طیاروں کو نیوزی لینڈ کی فضائی حدود اور اس کے پانیوں میں داخل ہونے سے روکیں گے۔

اس دوران کی تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور سن 2008 کے بعد پہلی بار اتنی قیمتیں بڑھی ہیں۔ ایشیائی بازار میں ایک بیرل خام تیل کی قیمت 139 امریکی ڈالر تک پہنچنے کے بعد اب 130 ڈالر پر ہے۔

یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والے سپلائی کے خدشات کے سبب حالیہ کئی دنوں سے توانائی کی منڈیوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ایندھن کی قیمتوں اور گھریلو بلوں میں اضافے کی وجہ سے صارفین پہلے ہی توانائی کی زیادہ قیمتوں کے اثرات محسوس کرنے لگے ہیں۔