امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع

 Iran Nuclear Program

Iran Nuclear Program

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس بین الاقوامی معاہدے کو بچانا ہے، جس سے امریکا سن 2018 میں یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ معاہدے کو برقرار رکھنے کی یہ پہلی سنجیدہ کوشش ہے۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں آج منگل کے روز یورپی یونین کی صدارت میں یہ بات چیت ہو رہی ہے۔ اس میں سن 2015 کے جوہری معاہدے کے شرکاء ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی وفد کی یورپی یونین کے مذاکرات کاروں سے علیحدہ میٹنگ ہوگی۔

امریکا کا کہنا ہے کہ ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے منگل کے روز ہونے والی بات چیت ”مشکل” ہے اور انہیں فوری طور پر کسی کامیابی کی امید نہیں ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کے روز کہا کہ امریکا ” بات چیت میں پیش آنے والے چیلنجز کو کم کر کے نہیں دیکھتا ہے۔ یہ ابھی ابتدائی معاملہ ہے۔ ہمیں فوری طورپر کسی کامیابی کی توقع نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بات چیت کافی مشکل ہوگی۔“

نیڈ پرائس کا جوہری معاہدے کے حوالے سے مزید کہنا تھا”اس کا فارمولا آج بھی وہی ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے مصدقہ اور مستقل طور پر روکنے کے بدلے پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔”

تہران نے امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا”چاہے جوائنٹ کمیشن کا ایجنڈا نتیجہ خیز ثابت ہو یا نہ ہو لیکن یہ یورپی اور مذاکرات میں موجود ممالک کو وہ شرائط یاد دلائے گی جن پر امریکا کو عمل کرنا ہے۔” ان کے مطابق ”روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی امریکا سے کیا بات کرتے ہیں یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔“

خطیب زادہ کے مطابق ایرانی وفد میں شامل ماہرین اس بات کی تفصیلات فراہم کریں گے کہ ایران معاہدے کی شقوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو روکنے کا کیا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا”ہم صرف ایک فیصلہ چاہتے ہیں اور وہ امریکی پابندیوں کا خاتمہ ہے یہ ایک بار میں ہونا چاہیے، مرحلہ وار نہیں۔”

ایران کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کے نمائندہ خصوصی راب میلے مذکرات میں امریکی وفد کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راب میلے کلنٹن اور اوبامہ انتظامیہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ راب میلے کی ایرانی وفد سے ملاقات طے نہیں ہے۔

وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ میٹنگ کے دوران نیوکلیائی معاہدے کے حوالے سے ان اقدامات پر بات چیت ہوگی جن پر ایران کو عمل کرنا ہے اور جن کے بدلے میں امریکا اس کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کرے گا۔

تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے علی واعظ کا کہنا ہے کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات اس بات کے مظہر ہیں کہ امریکا اور ایران دونوں ہی تعطل کو توڑنے کے تئیں سنجیدہ ہیں۔

ایک دیگر تھنک ٹینک آرمس کنٹرول ایسوسی ایشن کی ڈائریکٹر کیلسی ڈیون پورٹ کا خیال ہے کہ مذاکرات کا فارمیٹ آئیڈل تو نہیں ہے لیکن یورپی یونین اس تعطل کو ختم کرنے کی اہل ہے۔ انہوں نے ان مذاکرات کو”فریقین کی جانب سے ایک ٹھوس قدم” قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے مسئلے کو حل کرنے میں تیزی آئے گی۔