اردو تعلیم اور ڈھنگ کی نوکری

 Urdu

Urdu

تحریر : روہیل اکبر

حکومت نے اسلام آباد کے سکولوں کو کارپوریشن کے ماتحت کیا تو اساتذہ نے تالے لگا دیے ہمیں اپنے مطالبات کے لیے بچوں کا مستقبل داؤ پر نہیں لگانا چاہیے اس وقت اساتذہ کی تنخواہیں موجودہ مہنگائی کے تناسب سے بہت کم ہیں ایک سکول ٹیچر اپنے گذر بسر کے لیے پارٹ ٹائم کام نہ کرے تو وہ اپنے بچوں کو بھی اچھی تعلیم نہیں دلا سکتا ہمارا نظام تعلیم چونکہ تین قسم کا ہے جو مختلف طبقات پیدا کررہا ہے سب سے اوپر وہ ایلیٹ کلاس ہے جو اپنے بچوں کو اعلی پرائیوٹ انگلش سکولوں میں پڑھاتے ہیں اور پھر وہی طبقہ ہم پر ہر لحاظ سے حکمرانی کرتا ہے وزیراعظم عمران خان کا بھی کہنا ہے کہ انگلش میڈیم میں ذہنی غلامی ہے ہمارے ملک کے نیچے آنے کی بڑی وجہ یہی تعلیمی نظام ہے سرکاری سکولوں میں پہلے بڑا اچھا نظام تھا لیکن آہستہ آہستہ نیچے کی طرف چلا گیا۔

ماضی میں کسی نے تعلیم کی بہتری پر توجہ نہیں دی طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کردیا اب حکومت نے یکساں نظام تعلیم رائج کردیا جو مستقبل میں ملک کیلئے فائدہ مند ہوگا انگریز کے تعلیمی نظام نے ہمیں کلچر اور اسلام سے بھی دور کیا اصولا جب ہم آزاد ہوئے تب ہمیں ایک سلیبس بنانا چاہیے تھا مگر مفاد پرست عناصر نے ہمارے نظام تعلیم کو طبقاتی بنا دیااورسکولوں کا نظام تین طرف چلا گیا ایک طرف دینی مدارس دوسری طرف اردو میڈیم اور چھوٹی سی کلاس کے لیے انگلش میڈیم بن گئے جبکہ جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے لیے انگلش میڈیم سکول بن گئے ان سکولوں سے فارغ ہونے والے بچے مقابلے کے امتحانوں میں پاس ہوکر اعلی سرکاری عہدوں پر بیٹھ گئے جبکہ ہمارے سرکاری سکولوں سے ایم اے کرنے والے کبھی پولیس کانسٹیبل کے لیے دوڑ لگارہے ہوتے ہیں کبھی کلرک اور نائب قاصد بھرتی ہونے کے لیے درخواستیں جمع کروا رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو بے روزگاری سے تنگ آکر رہڑھی لگا لیتا ہے مگر ایک بات سبھی طبقات میں مشترک ہے کہ ہماری یہ تعلیم ہمیں ایک مفید پاکستانی شہری نہیں بنا سکی اس نصاب نے جو قوم تیار کی ہے وہ سب کے سامنے ہے نصابی اور غیر نصابی اخلاقی تربیت میں اضافہ ہونا چاہیے پہلا سبق ہی معاشرتی آداب ہونے چاہئیں۔

جیسے سڑک پر پیدل یا گاڑی میں چلنے کے آداب، اسکول، کالج، یونیورسٹی، بازار، بسیں، دفاتر میں خواتین کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے اور تو اور ہمیں صفائی کے آداب نہیں ہیں اپنے گھر کا کوڑا ہمسائے کے دروازے کے سامنے پھینکنا عین ثواب سمجھتے ہیں چلتی گاڑی سے سگریٹ اور جوس کے ڈبے سڑک پر پھینکنا ہم نے اپنا کلچر بنا رکھا ہے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ نے میں ہم تمام اخلاقی قدریں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں کسی بھی قوم کی پائیدار معاشی ترقی کیلئے لازمی ہے کہ قوم کا ہر فرد ترقی کے عمل میں موثر حصہ لے تاکہ جلد از جلد معاشرے کے تمام لوگوں کیلئے ترقی و خوشحالی کی منازل حاصل ہو سکیں معاشی آسودگی اور سرخروئی کے حصول کیلئے ہمیں اپنے نظام تعلیم کو از سر نو تبدیل کرنا پڑے گا دین اسلام میں حصول تعلیم کی بار بار تلقین کی گئی ہے اور علم کو مومن کی گمشدہ میراث قرار دیا گیاہے۔پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے۔

آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے سب سے زیادہ شرح تعلیم اسلام آباد کا ہے جو 96 فیصد ہے اور سب سے کم کوہلو کا ہے جو 28 فیصد ہے۔2000 اور 2004ء کے درمیان55 سے 64 سال تک کے عمر والے پاکستانی شہریوں کی شرح تعلیم 38 فیصد ہے، 45 سے 54 سال تک کے عمروالے افراد میں شرح تعلیم 46 فیصد تھا۔25 سے 34 سال تک عمر والے افراد میں شرح تعلیم 57 فیصد اور 15 سے 24 سال والے افراد میں 72شرح تعلیم فیصد تھا۔ شرح تعلیم علاقے سے علاقے پر مشتمل ہے، کئی علاقوں میں زیادہ اور کئی علاقوں میں کم ہے پاکستان میں دنیا کے اکثر ممالک سے شرح تعلیم زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں ایک بہت بڑی آبادی (تقریباََ 5 ملین سے زیادہ) سکولوں سے باہر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سر نے پنجاب میں ہائرایجوکیشن کے بجٹ میں 286 فیصداور سکول ایجوکیشن کے بجٹ میں 29فیصد اضافہ کردیا ہے کیونکہ حصول تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اسکے ساتھ ساتھ پنجاب پہلا صوبہ ہے جس نے ای ٹرانسفر پالیسی متعارف کرائی اور یہ اعزاز سب سے پہلے محکمہ تعلیم کو حاصل ہوا اب تک میرٹ کی بنیاد پر86 ہزار سے زائد اساتذہ ای ٹرانسفر پالیسی سے مستفید ہوچکے ہیں اساتذہ کو ای ریٹائرمنٹ، ای پروموشن، ای پنشن اور ای لیو کی سہولتیں بھی میسر ہیں حکومت نے 3 برس میں 1533سکول اپ گریڈ کئے ہیں اوررواں مالی سال میں مزید 7ہزار سکول اپ گریڈ کئے جائیں گے اورمجموعی طورپر 27ہزار سکول اپ گریڈ کئے جائیں گے جن میں جنوبی پنجاب کے 40فیصد سکول شامل ہیں اورگرلز سکولوں کا تناسب 53فیصدہے 17اضلاع کے سکولوں میں 400لائبریریاں بنائی گئی ہیں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈرکی تعلیم اورٹریننگ پر توجہ دی گئی ملتان میں پہلا ٹرانس جینڈر سکول قائم کیاگیا ہے یہ سب تبدیلیاں اس وقت کارآمد ہونگی جب ہمارا نظام تعلیم ایک ہوگا اردو ہماری قومی زبان ہے اس لیے مقابلے کے امتحانات بھی اردو میں ہی لیے جائیں تاکہ ہمارے سرکاری سکولوں کے بچے بھی کوئی ڈھنگ کی نوکری کرسکیں ہمارے اساتذہ بھی پوری محنت سے بچوں کو کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ انکی اخلاقی تربیت میں بھی اپنا کردار ادا کریں سکولوں کی تالہ بندی کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مذاکرات سے بہتری کی گنجائش نکل آتی ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر