امریکی فوج کی واپسی اور جوبائیڈن

US Army

US Army

تحریر : روہیل اکبر

افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے حوالہ سے صدر جو بائیڈن پربہت تنقید کی جارہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو بائیڈن نے افغانستان سے افواج کے انخلا کا انتہائی سمجھداری کا فیصلہ کیا طالبان کے جیتنے اور امریکا کے بالآخر 20سال بعد شکست کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال د یے پاکستان مخالف افواہ ساز فیکٹریاں اس ساری صورتحال کے پیچھے پاکستان کو پیش کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہیں فرض کریں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحہ سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے پہلے افغان حکومت نے کرنا شروع کیاتھا تاکہ وہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں۔

اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے امریکا کے خلاف طالبان کی مدد کا الزام درست مانا جائے تو مطلب پاکستان امریکا سے زیادہ طاقتور ہے جب کہ پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا پروپیگنڈا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت نے کیا، اشرف غنی حکومت نے اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھارت نے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے اسپانسر کیاایک اور مثال پیش کرتا ہوں اس وقت پاکستان کی 22کروڑ عوام کے لیے کل بجٹ 50ارب ڈالر ہے اوریہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے منہ کا نوالہ شدت پسندی کو فراہم کریں جو امریکا پر حاوی ہو وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دیے لہذا یہ محض پراپیگنڈا ہے اس وقت امریکہ کا کہناہے کہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی کیوں نہیں کی کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دیے رہ گئی بات طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی پاکستان چونکہ عالمی برادری کا حصہ ہے اور ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اس لیے طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے۔

طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں پھر وہاں تاجک بڑی اقلیت ہیں اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحد کر سکے طالبان ایک مشکل جدوجہد سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے، انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی ایک اور اہم بات کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے تمام ہمسایہ ممالک متاثر ہونگے پاکستان کے نکتہِ نظر سے افغان سرزمین سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے سے ہی تین دہشتگرد گروہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کراتے رہے ہیں۔

امریکا کابھی افغانستان میں بہت بڑا کردار ہے کیونکہ وہ وہاں 20 سال رہا، امریکا کی افغانستان پر حملہ کرنے کی واحد وجہ دہشت گردی تھی اگر افغان سرزمین دوبارہ دہشت گردوں کی جائے پناہ بن جائے تو پھر آخر آپ نے کیا کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں شکست کے بارے میں امریکی سینیٹرز کے پاکستان مخالف بیان پربھی شدیدحیرت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اس جنگ میں امریکا کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہمیں اس جنگ میں اتحادی بننے کا کہا گیا حالانہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا ہماری اس جنگ میں شمولیت کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن اب اپنی ناکامیوں پر امریکا کو پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ انہیں ایک مستحکم ملک کے قیام کی ترغیب دیں اگر دنیا نے افغانستان پر پابندیاں لگائیں تو افغانستان ٹوٹ جائے گا اور پھر دہشت گردی پوری دنیا میں پھیل جائیگی۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر