امریکا، پولیس فائرنگ سے سیاہ فام کی موت، پر تشدد مظاہرے جاری

US Police Firing

US Police Firing

فلاڈیلیفیا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں پولیس کی گولی سے ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے تازہ واقعے کے بعد فلاڈیلفیا میں دوسری رات بھی پرتشدد مظاہرے اور لوٹ مار کے واقعات پیش آئے۔

امریکا میں صدارتی انتخابات سے ٹھیک چند روز پہلے فلاڈیلیفیا میں پولیس کی گولی لگنے سے ایک سیاہ فام شخص کی موت ہو گئی، جس کے بعد سینکڑوں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے پرتشدد مظاہرے کیے اور متعدد دکانوں کو لوٹ لیا۔ مظاہروں میں پولیس کے اہلکاورں سمیت کئی درجن افراد زخمی ہوگئے ہیں جب کہ متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

محکمہ پولیس نے ٹویٹر پر لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تقریباً 1000 افراد پر مشتمل ایک ‘بڑا ہجوم‘ کاسٹر اور ارامنگو علاقے میں دکانوں کو لوٹ رہا ہے۔ اس لیے شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے میں جانے سے پرہیز کریں۔

خبروں میں دکھائی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ فٹ لاکر اسٹور اور دیگر دکانوں کو توڑ کر اس کا سامان لوٹ رہے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک رپورٹر کے مطابق مغربی فلاڈیلفیا میں بھی تقریباً 1000 افراد جمع تھے اور پولیس انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھیاں برسا رہی تھی۔

پنسلوانیا کے گورنر ٹام وولف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”عوام کی حفاظت کرنے اور لوگوں کے پرامن اکٹھا ہونے اور مظاہرے کرنے کے حق کا خیال رکھنے‘ کے لیے شہر میں نیشنل گارڈ کے سینکڑوں جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

کشیدگی اور تشدد کا یہ تازہ واقعہ 27 سالہ والٹر ویلیس کی موت کے بعد پیش آیا ہے۔ والٹر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار تھا۔ دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے والٹر کو چاقو پھینکنے کے لیے کہا تھا لیکن جب اس نے ایسا نہیں کیا تو اسے گولی مار دی گئی۔

والٹر کی موت کے بعد پیر کی رات سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور لاٹھیاں برسائیں اور اس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ زخمی ہونے والوں میں 30 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جب کہ پولیس نے 90 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس کی ترجمان تانیا لٹل نے بتایا کہ پولیس کو پیر کے روز اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص ہاتھ میں ہتھیار لیے ہوئے ہے۔ اس کے بعد پولیس افسر کرابس کریک علاقے میں پہنچے، جہاں ان کا سامنا والٹر ویلیس سے ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چاقو تھا۔ پولیس نے اسے چاقو پھینک دینے کے لیے کہا۔ پولیس ترجمان کے مطابق والٹر پولیس افسران کی طرف بڑھ گئے جس کے بعد دونوں افسران نے ‘کئی مرتبہ‘ گولی چلائی۔ ویلیس کے کندھے اور سینے پر گولی لگی۔ ایک افسر نے ویلیس کو ہسپتال پہنچایا، جہاں انہیں مردہ قراردے دیا گیا۔

والٹر ویلیس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی بیماری سے دوچار تھے اور خاندان نے ایمبولینس کے لیے فون کیا تھا۔ پولیس فائرنگ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائر ل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف پولیس کی دلیل ہے کہ والٹر چاقو لیے ہوئے تھے اور انہوں نے پولیس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم والٹر کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتہ تھا کہ ان کا بیٹا ذہنی بیماری سے متاثر ہے۔ والٹر کی والدہ کا کہنا تھا”وہ وہاں کھڑے تھے اور ہم پر ہنس رہے تھے۔”

والٹر ویلیس کی ہلاکت کا معاملہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب امریکا میں تین نومبر کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ‘بلیک لائیوز میٹر‘ اس میں ایک اہم موضوع ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ مئی میں مینی سوٹا میں جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

والٹر ویلیس کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے پولیس پر نسل پرستی اور بے رحمی سے کارروائی کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پیٹر ویلیس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔