امریکا نے شام میں اپنی فوج ترکی کے آپریشن زون سے دور ہٹا دی

Pentagon

Pentagon

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے شمالی شام میں ترک فوجی کارروائی کے ممکنہ راستے سے اپنی افواج کو دور کر دیا ہے۔

جوناتھن ہوفمین نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں شام میں ترکی کے ممکنہ حملے کے بارے میں سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین مارک ملی سے مشاورت کی ہے۔

ہوف مین نے ایک بیان میں کہا “بدقسمتی سے ترکی نے یک طرفہ طور پر فوجی آپریشن راستہ چنا ہے۔اس کے نتیجے میں ہم نے شمالی شام میں امریکی فوجوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ترکی کے ممکنہ حملے کے راستے سے دور کردیا ہے۔ تاہم شام میں اپنی فوج کی موجودگی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی”۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز کہا تھا کہ انہوں نے شام میں کردوں کو کسی بھی طرح تنہا نہیں چھوڑا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹس کی ایک سیریز میں لکھا کہ ہوسکتا کہ ہم ش چھوڑ دیں مگر ہم کردوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے

انہوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں لکھا کہ “ترکی کی طرف سے کوئی بھی غیر ضروری لڑائی ان کی معیشت اور اور پہلے سے گراوٹ کا شکار ترک لیرہ کی تباہی کا موجب بنے گے۔ ہم کردوں کو مالی اور اسلحے سے مدد کریں گے”۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ برائے مشرق وسطی امور اینڈریو ماریسن نے کہا کہ اگرچہ فوجی فیصلے امریکی انتظامیہ کے لیے اندرونی معاملہ ہے تاہم برطانوی حکام نے اپنے امریکی ہم منصبوں سے شام میں ترکی کےفوجی آپریشن اور اس کے نتائج پر بات چیت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شام میں کرد فورسز کے خلاف ترک کے فوجی آپریشن کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

ترکی کی وزارت دفاع نے منگل کو شمالی شام میں فوجی آپریشن کی تیاریوں کی تکمیل کا اعلان کرنے کے بعد شام میں اپنی فوج داخل کردی ہے۔

ترکی کی فوج نے شام کی سرحد پر واقع اپنی یونٹوں کو مزید کمک بھیج دی ہے۔بکتر بند گاڑیوں سے لدے فوجی ٹرک اور جنوبی ترکی سے شام کی سرحد کی طرف جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔