پردہ مذہب اور شرمندگی

Pakistani Drama

Pakistani Drama

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

دنیا بھر کے ڈراموں اور فلموں میں اپنے مذہبی عقائد کو بڑے اہتمام کیساتھ دکھایا جاتا ہے چاہے وہاں عام آدمی اتنا مذہبی لگاو رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔ اور تو اور خود کو سیکولر کہنے والا ہندوستان بڑے ہی تواتر کیساتھ اپنی فلموں اور ڈراموں میں کئی کئی منٹ کے مناظر اپنے مذہبی عقائد دکھانے پر صرف کرتا ہے۔ لوگوں کو اپنے مذہب کی جانب متوجہ کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستانی ڈارامہ ہو یا فلم ہمیں تو برسوں گزر چکے ہیں اس امید میں کہ شاید کہیں آپ کو اپنی عید کا تہوار مناتے دکھایا جائے کہیں عید قرباں کا اہتمام اور اغراض مقاصد دکھائے جائیں ۔ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں ہمیں عیدین پر ابنے تہواروں کے بارے میں کوئی فلمی گیت سنے ہوئے ۔ لے دے کر ان کے موضوعات عاشقی سے شروع ہوتے ہیں اور گھر سے فرار پر ختم ہوتے ہیں ۔ کہیں شب برات کا تہوار دکھایا جاتا ہے نہ ہی کسی جگہ ربیع الاول کے تقریب دکھائی جاتی ہے۔

اور تو اور نماز کی ادائیگی تک کہیں پر درست انداز میں نہیں دکھائی جاتی ۔ خواتین کا باریک دوپٹہ ، سارا بدن ڈھکے بغیر فیشن ایبل لباس میں آدھی آستینوں کے ساتھ ننگے بال میں نماز کی ادائیگی کون سے اسلام میں ہو سکتی ہے ؟ ہم کون سا اسلام دکھانا چاہتے ہیں ؟

حوالے کے طور پر صرف ایک حالیہ ڈرامہ سیریل کشف دیکھیئے جس میں پیرنی بنی خاتون تک کا آدھا سر نماز کے دوران بھی ننگا رہا ۔ نکاح کی تقریب میں خواتین مریدنیاں بال کھولے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے کھڑی ہیں ۔ کس چیز کی نمائش کرنا چاہتے ہیں اسے بنانے اور دکھانے والے ۔ ۔۔۔

اپنے مذہب پر ہم شرمندہ ہیں یا اپنے کلچر پر ہمیں افسوس ہوتا ہے ۔ آخر ہم کس جانب کو رواں ہیں ۔ ہم کیسے توقع کرینگے کہ ہماری نسل اپنے دین سے محبت کرے گی یا اپنے مذہب کو دل سے قبول کرینگے ۔

آخر کون سے بدبخت ڈرامہ نگار اور غلام کہانی کار ہیں جو محض پیسہ کمانے کے لیئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے دین اور معاشرت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اپنی نسلوں کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ ہمارا میڈیا تو ہماری قوم کی ذہنی اور اخلاقی تعمیر کا ذمہ دار رہا ہے اسے اس کے کردار کی تباہی کا ٹھیکہ کس نے دے دیا ۔ ہمیں بہت سی ایسی باتیں جو عام زندگی میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن وہ شرمناکی بڑے سہل انداز میں ہمارا ڈرامہ ہمیں اس روپ میں انجیلٹ کر رہا ہے ۔ نتیجہ کچے ذہن ماں باپ کے منہ ہر آکر کھڑے ہونے لگے ہیں۔

لڑکیاں گھروں سے بھاگنے کو فن اور حق سمجھنے لگی ہیں ۔ والدین کی آبرو اب مذاق میں اڑائی جانے لگی ہے ۔ والدین کی نافرمانی اور اپنے دین کی پیروی کرنے والے کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مولانا کا دکھایا جانا ڈرامہ کو فلم کو رسک میں ڈالنا لگتا ہے ۔ کیا دنیا میں نوٹ کمانے کی دھن میں آخرت کا سودا ہو چکا ہے یا ہمیں خدا کے وجود کا یقین کرنے کے لیئے ہر بار پتھروں کی بارش کا انتظار کرنے کا شوق ہے ۔ تو یاد رکھیئے یہ بارش دیکھنے والے خواہشمندوں کی یہی خواہش ان کی آخری خواہش بھی بن جاتی ہے ۔ اللہ کے ہاں جواب طلبی کا احساس ہمارا ایمان ہے۔ اگر ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے تو اس کی فکر کیجیئے ۔ اپنے اولادوں کو میڈیا کے ذریعے تربیت دینا ہے تو پہلے اس میڈیا کا قبلہ درست کیجیئے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس