وارڈن پولیس اور پہل

Warden Police

Warden Police

تحریر : قاسم علی خان

آج بروز جمعہ قریباً بارہ بجے، موٹر بائیک پر میں اپنے گھر سے نکلا جب مین روڈ پر پہنچا تو ایک طرف میں نے لوگوں کی بھیڑکو دیکھاجوکہ مجھے ایکسیڈنٹ کی علامت لگی۔عام طور میں رُکتا نہیں ہوں ایسی جگہوں پر۔ اب چونکہ یہ اپنا محلہ تھا تو رُک گیا یہ سوچ کر کہ کوئی اپنی جان پہچان والا نہ ہو۔ جب میں بھیڑ کی طرف بڑھا تو مجھ سے پہلے میرے دیکھتے ہوئے ایک راولپنڈی ٹریفک وارڈن پولیس والا اپنی موٹر بائیک پر مجھ سے پہلے پہنچ گیا۔ میرے واہاں تک پہنچتے پہنچتے اُس شخص نے اپنی ذمہ داری کو خوب نبھایا، واہاں سے لوگوں کے ہجوم کو منتشر کردیا اور روڈ پر رُکی ہوئی گاڑیوں کو بھی بحال کر دیا۔

جب میں بیھڑ میں پہنچا تو ایک نوجوان لڑکا روڈ کے کنارے زمین پر پڑا ہوا تھا، دو بندے اُس نوجوان کے پاؤں کی مالش کر رہے تھے اِسی طرح دو بندے اُس کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو مَل رہے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص پانی کی بوتل اُٹھائے بھاگا آ رہا تھا ۔ پانی نوجوان کے چہرے پر ڈالا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکا اُٹھ بیٹھا چونکہ ایکسیڈنٹ انتہائی نہ تھا ۔ایکسیڈنٹ کی نوبت کاتو مجھے معلوم نہیں کیسے ہوا۔البتہ معلوم ایسے ہو رہا تھا کہ نوجوان روڈ پار کر رہا تھا کہ کسی بائیک یا گاڑی والے نے اُس کو ٹکر لگادی ۔ ایسے نوجوان گِرا اور خوف کے مارے کچھ پل کو بے ہوش ہو گیا تھا ۔

شُکر ہے اب وہ لڑکا بہتر محسوس ہو رہا تھا مگر رونے کے جیسی اُس کی حالت تھی۔ چونکہ اُس نوجوان کے پاس میٹھے پکوان والا ٹوکرا تھا جو کہ حادثہ کے سبب روڈ کے بیچ گِرا پڑا تھا جبکہ لوگ اُس کے میٹھے پکوان جو کہ چکناچور ہو چکے تھے۔ اُٹھا اُٹھا کر اُس کے ٹوکرے میں ڈالتے جا رہے تھے۔

نوجوان اپنی حالت سے انتہائی مفلس، تنگدست اور غریب لگ رہا تھا اور اِس وقت تو وہ اور بھی زیادہ پریشان حال تھا چونکہ اُس کی دیہاڑی کا سازوں سامان اُس کی آنکھوں کے سامنے روڈ پر بِکھرا پڑا تھا جوکہ کسی کچرے سے کم نہ تھا۔

میرے جی میں اُس نوجوان کے ساتھ مدد کرنے کا جذبہ عروج پر تھا۔ مگر میں ڈر رہا تھا ۔ چونکہ اب بھی کچھ لوگ واہاں پر موجود تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کا ہجوم کم ہو اور میں اپنی بساط کے مطابق چپکے سے اِس کے ساتھ تعاون کردوں گا۔ اتنے میں وارڈن پولیس والے نے اپنا پرس نکالا اور کچھ سوچتے ہوئے ستر روپے نکال دیئے۔ سوچ سمجھ کر ستر روپے نکالنے کی وجہ بھی مجھے سمجھ میں آ رہی تھی چونکہ مہینے کی آخری تاریخیں ہیں اور اِن کی بھی کون سا لاکھوں میں تنخواہیں ہیں ۔یہ بےچارے بھی عام عوام کی طرح ہوتے ہیں جن کا بس دھکے سے مہینہ ہی چلتا ہے۔ اور مہنگائی کے پَر اسقدر مضبوط اور بڑے ہو چکے ہیں کہ خلا میں اُڑتے جہازوں سے بھی بُلند پرواز مہنگائی کی رہتی ہے۔

پھر مہنگائی کے رونے کی اہمیت تو گھنے جنگل میں نکلتی ہوئی خوناک آوازوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ میں نے وارڈن پولیس والے سے ستر روپے پکڑلیئے ، اپنے جیب سے تھوڑے روپے نکال کر اُس میں شامل کر دیئے ۔ پھر میں نے قریب کھڑے لوگوں سے کہاں کہ برائے مہربانی سب لوگ اپنی اپنی توفیق سے اِس لڑکے کے ساتھ تعاون کرو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس نوجوان کے ٹوکرے میں تین ہزار روپے تک جمع ہو گئے ۔ میں نے دو بولوں میں وارڈن پولیس والے کی تعریف کی اور اپنی راہ چل دیا۔

کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جوکہ صرف دوچار سو یا پانچ سات سو کی مشکل سے دیہاڑی لگاتے ہیں ۔ آپ اِن کے ساتھ تعاون کیا کریں اِن لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت والا معاملہ رکھا کریں بلکہ کبھی کبھی اِن سے بےوجہ ہی سامان خرید لیا کریں۔ یہ لوگ کمائی کی غرض سے محنت نہیں کرتے بلکہ اپنے گھر کے چولہے کو جلتا رہنے کی غرض سے کام کرتے ہیں۔

دوسرا مقصد یہ ہے کہ نیک کاموں میں یا مفلس اور تنگدست کی مدد کرنے میں پہل کیا کریں۔ جیسے کہ راولپنڈی وارڈن پولیس والے شخص نے پہل کی ، اُس کو دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی فوراً سے اپنی اپنی توفیق کے مطابق تعاون کر دیا۔ آپ کی پہل کسی خاندان کے چولہے کو تیز آندھی کے بجھانے سے بچا سکتی ہے یا کسی مفلس انسان کو اچھی روزی کی اُمید دِلوا سکتی ہے۔ اللہ ہر شخص کے لئے اپنے حبیبِ دو عالم ﷺ کے صدقے سے آسان اور برکت والی روزی کا بندوبست فرمائے۔

Qasim Ali

Qasim Ali

تحریر : قاسم علی خان