گرم کپڑے

Warm Clothes

Warm Clothes

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں کسی دوست کے مسئلے کے لیے اُس کے ساتھ سرکاری دفتر آیا ہوا تھا سرکاری دفتر اور بابوئوں کا طریقہ کا رنخرے برداشت کر رہا تھا یہ کاغذ کم ہے وہ کم ہے یہ دیر سے جمع کر ایا یہ نہیں کرایا یہ فیس کم ہے بہانوں پر بہانے اور ٹال مٹول کا سلسلہ جاری تھا میں نے ارادہ کیا تھا کہ آج سفارش نہیں کرانی عام لوگوں کی طرح قطار میں لگ کر کلرکوں کے نخرے سہہ کر کو شش کرنی ہے اِس بھاگ دوڑ میں ایک گائوں سے آیا ہوا بندہ مسلسل مجھے فون پر فون کئے جا رہا تھا وہ بار بار ایمرجنسی کا کہہ کر کال کر رہا تھا مجھے امید تھی کہ جلدی سرکاری شعبدہ بازوں سے جان چھوٹ جائے گی لیکن یہ مداری نئے سے نیا ڈرامہ کر رہے تھے اِس بھاگ دوڑ میں جب بھی موقع ملتا میں اُس پریشان حال شخص کا فون سن لیتا اور اُسے کہہ دیتا کہ تھوڑی دیر تک کال کریں وہ بیچارہ شاید بہت پریشان اور عجلت میں تھا۔

تھوڑی دیر بعد ہی پھر فون کر دیتا تو آخر کار تنگ آکر میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا جناب آپ چاہتے کیا ہیں تو وہ بولا سر مجھے ہر حال میں آپ سے ملنا ہے تو میں نے کہا آپ نے جو بات مل کر کرنی ہے ابھی کرلیں تو وہ بہانا بناتا نہیں سر مجھے موبائل پر بات نہیں کرنی بلکہ ہر حال میں مل کر آپ کو اپنا مسئلہ بیان کروں گا میں صبح سے آکر آپ کے گھر کا طواف کر رہا ہوں جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے میں گھر واپس نہیں جائوں گا مجھے اُس کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ شخص ملے بغیر واپس نہیں جائے گا اِس لیے اُس سے مزید بحث نہیں کہ لیکن جب دفتری کام میں اور دیر ہو گئی اور اُس کی پھر کال آگئی تو میںنے پھر درخواست کی کہ آپ واپس چلے جائیں میں اِدھر کسی کام میں پھنسا ہوا ہوں یہاں پر متعلقہ سرکاری بابوسیٹ پر نہیں ہے اُس کا انتظار کرر ہاہوں جیسے ہی وہ آئے گا تو میں اپنے گھر واپس آئوں گا لیکن اُس شخص نے چٹانی لہجے میں پھر کہا سر آپ سے ملنا بہت ضروری ہے پھر مجھے اپنی گزشتہ ملاقاتوں کا حوالہ بھی دیا کہ میں اپنے بیٹے اور بیگم کے ساتھ آپ کے پاس پہلے بھی کئی بار آچکا ہوں مجھے آپ کی مدد کی بہت ضرورت ہے۔

میں اُس کو ٹال رہا تھا لیکن وہ ملنے پر بضد تھا اُس کی ضد سے میرے لہجے کی نرمی اور شائستگی رخصت ہو گئی دوبارہ کال آئی تو تھوڑا سختی سے بولاآپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ میں کسی کام کے سلسلے میں کہیں پر پھنسا ہوا ہوں آپ چلے جائیں آج ملنا مشکل ہے میری ناراضگی سے وہ شاید سہم گیا اور فون بند کر دیا اب میں نے سختی سے بنات کر تو لی لیکن ہمیشہ کی طرح اب پچھتاوے اور ندامت کا دورہ پڑنا شروع ہو گیا کہ تم کسی مجبور ضرورت مند سے اِس کرخت لہجے میں بات کیوں کی اب میں ندامت اور پچھتاوے کی آگ میں سلگ رہا تھا آخر کار بہت سارا وقت گزارنے کے بعد شام کے قریب گھر آیا تو ایک شخص کو دروازے پر منتظر پایا تو پتہ چلا یہ وہی شخص ہے جو صبح سے مجھے کال کر رہا تھا کیونکہ میں عرق ندامت میں ڈوبا ہوا آیا تھا اپنی سختی کا مداوا کر نا چاہتا تھا اِس سے معذرت خوانہ لہجے میں بولا میں معذرت چاہتا مصروفیت کی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور آپ کو انتظا رکی تکلیف سے گزرنا پڑا آئیں آرام سے بیٹھ کر آپ سے بات کر تا ہوں یہ میری پرانی فطرت یا عادت ہے کہ اگر کبھی سے کسی سے سختی ناراضگی سے بات کر لوں تو پھر اُس کو منانے کی پوری کو شش کر تا ہوں اُسی عمل کو اب میں دہرارہا تھا اُس کو بٹھا کر گھر چلا گیا کہ اچھی چائے اور لوازمات مہمان کے لیے بھیج دیں۔

پھر اُس کے سامنے آکر خو شگوار موڈ میںاُس سے باتیں کرنے لگا کہ فرمائیے جناب میںآپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں میری نرمی اور اچھے رویے سے اُس کا ڈر خوف ختم ہوا پھر نظریں جھکائے شرمندہ لہجے میں بولا جناب مجھے آپ کا استعمال شدہ گرم سوٹ چاہیے میں برکت کے لیے اپنے جوان بیٹے کو پہنانا چاہتا ہوں سوٹ چاہیے میںبرکت کے لیے اپنے جوان بیٹے کو پہنانا چاہتا ہوں اُس کا قد کاٹھ بھی آپ جیسا ہے پرانا استعمال شدہ سوٹ سن کر میں حیران لہجے میں بولا پرانا استعمال شدہ کیوں آپ بازار سے نیا کیوں نہیں لیتے یا مُجھ سے ہی چاہیے تو میں آپ کو نیا گرم کپڑا لا دیتا ہون آپ اپنی مرضی کا سلوا کر پہنا دیں اِسی دورنا چائے وغیرہ آگئی تو میں سب کچھ اُس کے سامنے چھوڑ کر گھر کے اندر چلا گیا اور کہہ گیاآپ آرام سے جی بھر کر چائے مٹھائی بسکٹ وغیرہ کھائیں میں تھوڑی دیر میںآتا ہوں میں جان بوجھ کر اندر گیا تاکہ یہ خوب کھل کر کھا پی سکے۔

تھوڑی دیر بعد میں واپس آیا تو وہ چائے کے ساتھ سب کچھ خوب جی بھر کر کھا چکا تھا اب میں آرام سے سامنے بیٹھ کر اُس کی طرف پیار سے دیکھ کر بولا میں معذرت چاہتا ہوں آپ کو انتظار کی تکلیف دی مرحلے سے گزرنا پڑا آپ اب حکم کریں میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں تو شرمندہ شرمندہ سا بولا نہیں سر آپ کی مہربانی میں ہی بتائے بغیر آیا تھا سرمیں کش مکش میں ہوں کہ جس کام کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں وہ مجھے کہنا چاہیے کہ نہیں میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا گرم جوشی سے دبایا اور میٹھے لہجے میں بولا آپ بے فکر ہو کر جو بات دل میں ہے کہہ دیں میرے ہمت دلانے پر اُس نے نم آلود آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور بولا سر آپ غصہ تو نہیں کریں گے تو میں نے پھر آپس کو یقین دلایا کہ بلکل نہیں توا ُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا سر مجھے آپ کا استعمال شدہ گرم سوٹ چاہیے جو کپڑے آپ کئی بار پہن چکے ہوں سر یہ زبردستی نہیں آپ کی مرضی ہے آپ انکار بھی کرسکتے ہیں میری خواہش ہے اس لیے میں نہ کہہ دی ساتھ میںدعائیں بھیہ دیںآج کل مہنگائی اور غربت نے چکی کے آٹے کی طرح پیس کر رکھ دیا ہے اللہ مدد کرے غربت کے مکڑے نے میرے گھر پر جالا بُنا ہے ہوا ہے غربت ختم ہو جائے۔

جناب میں آپ کو نیا گرم سوٹ دیتا ہوں وہ جا کر سلو ا لیں تو وہ پھر بولا نہیں جناب نیا نہیں اپنا استعمال شدہ سوٹ دے دیں اب میںبھی پریشان کہ وہ نیا سوٹ کیوں نہیں اور پرانا ہی کیوں مانگ رہا ہے تو وہ بولا جناب میں عقیدت کے طور پر لینا چاہتا ہوں میرا بیٹا جوان ہو گیا ہے بیمار رہتا ہے آپ کا سوٹ پہنے گا تو صحت مند ہو جائے گا میں اُس کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات کو غور سے دیکھ رہا تھا چہرے آنکھوں کے تاثرات اُس کی باتوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے لیکن وہ بضد تھا کہ پرانا سوٹ ہی چاہیے اب میں نے غور سے اُس کو دیکھا تو غربت اُس کے انگ انگ سے ٹپک رہی تھی میں اندر گیا دو گرم سوٹوں کا کپڑا اور استعمال شدہ دو سوٹوں کے ساتھ گرم چادر لا کر اُس کو ساتھ میں تھوڑے سے پیسے اپنے کپڑوں کی جیب میں رکھ دئیے تاکہ اُس کی عزت نفس مجروع نہ ہو شروع میں تو اُس نے لینے سے انکار کیا لیکن میرے اصرار کرنے پر شکر یے کے ساتھ واپس چلا گیا لیکن میری کھوج کی ساری حسیں بیدار کر گیا کہ اِس پرانے گرم سوٹ کا راز کیا ہے۔

اب میں نے اُس کے دوست کو فون کیا جس کی وساطت سے یہ میر ے پاس آیا تھا اُس کو سارا واقعہ بتا یا کہ گرم سوٹ کا کھو ج لگا ئو اُس کی بیوی اِس کی بیوی کی بہت اچھی دوست تھی پھر چنددنوں بعد ہی اُس کے دوست کا فون آگیا سر آپ کا شک ٹھیک نکلا اُس بیچا رے کو مہنگائی سے اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے جمع پونجی زیوارت بیچنے کے بعد اب وہ مختلف بہانوں جاننے والوں کے گھروں میں جاتا ہے بہانوں سے کھانے کی اشیاء کپڑے دوائیاں وغیرہ گھر لاتا ہے اِس طرح زندگی کی گاڑی کو چلانے کی کو شش میں شرمندگی ذلت کے ساتھ لگا ہوا ہے دوست نے اُس کی غربت کے بہت سارے حالات بتائے تو میں منجمند ہو کر رہ گیا کہ مہنگائی نے معاشرے کے بڑے طبقے کو بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے ہمارے دائیں بائیں کتنے لوگ ہیں جو گرم کپڑوں جرسیوں سویٹروں کی تلاش میں بھکاری بنے پھرتے ہیں کیا ہماری بخشش ہو جائے گی اگر ہمارے اطراف میں لوگ سردی سے ٹھٹھرٹھٹھرکر مر رہے ہوں میں جب بھی کوئی گرم کپڑا استعمال کرتا ہوں تو اُس بیچارے کی ڈیمانڈ سر مجھے گرم استعمال شدہ سوٹ دے دیں نیا سوٹ سلوانے کے پیسے نہیں ہیں۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org