محبتوں کی سفیر ۔۔۔رقیہ غزل

Writer

Writer

تحریر : نسیم الحق زاہدی

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں

عورت نصف انسانیت ہے۔عورت کے تصور سے ہی کائنات میں رنگ وبو ہے۔عورت مختلف اور منفرد خصاصل و صفات کی مالکہ ،فہم وفراست ،عود ومشک گلاب سے بہتر عزت وقار میں عرفہ وشفقت رحمت سے معورکا ہر خاکہ رنگین ومذین ہے۔ایک دانشور کا قول ہے کہ رب تعالیٰ نے حضرت آدم سے جنت چھین کر عورت کے قدموں میں بچھادی کوئی شک نہیں کہ اگر دنیا کائنات میں وجود زن نہ ہوتا تو کائنات ہی ممکن نہ ہوتی ۔اس حقیقت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ؟یہ دیوی قلو پطرہ کا روپ دھارے تو جولیس سیزراور مارک انطونی کو سحر میں جکڑ لے ، جون آف آرک بنے تو برطانوی لشکر کو شکست فاش دیکر فرانس کا تخت وتاج چارلس ہفتم کے قدموں میں ڈال دے ،جھانسی کی رانی کی صورت میں انگریز فوج کے دانت کھٹے کردے ،رضیہ سلطان ہو تو میدان جنگ میں مردوں کو زمین چٹائے مدر ٹریسا کے روپ میں زمانے کے زخموں کا مرہم بن جائے ،نور جہاں بن کر جہانگیر کی سلطنت پر حکمرانی کرے اور انار کلی بنے تو مہابلی اور شیخو کے درمیان چنی ہوئی دیوار بن جائے ،علم ودارالعمل کے بحروقلزم کو عبور کرے تو رقیہ غزل بنے۔

لکھنا اور ایسا لکھنا کہ پڑھنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دینا ،بولنا اور ایسا بولنا کہ سننے والے پر سحر طاری کردینا قدرت نے یہ ہنر رقیہ غزل کو عطا کیا ہے ۔کسی دانشور کی سوچ کسی شاعر کا خیال ۔چہرہ اک پھول کی طرح شاداب ہے ۔چہرہ اس کا ہے یا کوئی مہتاب ہے ۔چہرہ جیسے غزل ،چہرہ جان ِغزل ۔چہرہ جیسے کلی ،چہرہ جیسے کنول ۔چہرہ جیسے تصور بھی ،تصویر بھی ۔چہرہ اک خواب بھی ،چہرہ تعبیر بھی ۔چہرہ کوئی الف لیلوی داستان ۔چہرہ اک پل یقیں ،چہرہ اک پل گماں۔چہرہ جیسا کہ چہرہ کہیں بھی نہیں ماہ رو ماہ رو مہ جبیں مہ جبیں ۔مسکراتا ہوا شاداب چہرہ ،جھیل سی آنکھیں، احساس انسانیت سے لبریز ،اخلاق محمدیۖاور ہمدردی کا مجسمہ پاکستان کی صف اول کی کالم نگار،شاعرہ ،دانشور یہ ہیں رقیہ غزل اپنے نام کی طرح کسی شاعرکی غزل کردار اور گفتار کی غازیہ مکتب صحافت کا بیس سالہ پرانا طفل ہونے کے ناطے اک مدت سے قومی اخبارات کے ادارتی صفحات پر ”حسب موقع ”کے عنوان سے انکے کالمز ،مضامین اور اخبارات،رسائل وجرائدمیں شاعری پڑھتا رہتا ہوں ۔اگر میں یہ کہوں کہ الفاظ رقیہ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں تو یہ مبالغہ آرائی نہیں ہوگی ،اگر میں یہ کہوں کہ رقیہ غزل پروین شاعر کی ہم پلہ ،ہم رکاب ہے تو یہ بھی خوشامد نہیں ہوگی ۔رقیہ لکھتی ہیں۔

کہنے کو مرے ساتھ دغا بھی نہیں کرتا
وہ شخص مگر وعدہ وفا بھی نہیں کرتا
دریا کے کناروں کی طرح ساتھ ہے میرے
ملتا وہ نہیں ہے تو جدا بھی نہیں کرتا
آئینے وہ احساس کے سب توڑ چکا ہے
کس حال میں ہوں میں یہ پتہ بھی نہیں کرتا
پوجا ہے تجھے جیسے مرے دل نے مری جاں
ایسے تو کوئی شخص دعا بھی نہیں کرتا
تا عمر غزل اس کی ہی بس ہوکے رہی میں
بھولے جومرا نام لیا بھی نہیں کرتا ۔

ان کے کالمزاسلامیت،پاکستانیت،انسانیت کے علمبردار ہوتے ہیں ۔ان کی تحاریر میں قلم کی روانی ادب کی جولانی اور تاثیر کی یکسانیت موجود ہوتی ہے انکے لہجے میں تفہیم کی گہرائی ،کہ جس کو سمجھنے کے لیے دنیا کی لغت بھی کم ہو شاید ۔کبھی کبھی یہ صنف نازک مجھ جیسے طفل مکتب کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اتنا باکمال کیسے لکھ لیتی ہے اور بول لیتی ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے احمد فراز نے یہ غزل ان کے لیے ہی لکھی ہو ۔

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں ۔

ایک وقت تھا کہ جب اہل قلم کی تخلیقات اور تصانیف پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی انکو انعام واکرام سے نوازا جاتا تھا مگر افسوس کہ آج قصیدہ گوئوں نے اہل قلم افراد سے یہ حق بھی چھین لیا ہے ۔یقین جانیے کہ یہ اہل قلم افراد قوموں اور ملکوں کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتے ہیں ۔مگر آج سب سے زیادہ نفرتوں اور حقارتوں کا سامنا انہی بے ضرر اور محبت کے امینوں کو کرنا پڑتا ہے ۔مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کا تجزیہ ہے کہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اور اسے سراہا جائے لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کردیں ۔تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتا ہے،اسکی خود اعتمادی بھی بحال ہوتی ہے ۔بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ دوسروں کو شاباشی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔آج سب سے زیادہ لگ پولنگ میدان صحافت اور اہل قلم میں ہو رہی ہے ۔

تعصب کا عالم یہ ہے کہ سالوں سے بڑے اخباری اداروں میں موجودوہ لوگ نئے لکھنے والوں کو آگے آنے کا موقع اس لیے نہیں دیتے کہ کہیں انکی اجاراداری نہ ختم ہو جائے ۔مگر کچھ لوگ اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر دشت ناانصافی میں بھی اپنا مقام ومرتبہ پیدا کرنے کی ہمت اور جرات رکھتے ہیں یہ لوگ اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سیکھا لیتے ہیں ۔انسان روز اول سے زمانے کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کا خواہشمند ہے مگر معاشرے میں بہت کم ایسے افرادموجود ہوتے ہیں جو زمانے میں بکھرے ہوئے احساسات،خیالا ت کو اکٹھا کرپاتے ہیں اور پھر فلاح انسانیت اور بقائے انسانیت کے لیے کچھ کرگزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں یقینا ایسے لوگ عظیم المرتبت ہوتے ہیں رقیہ غزل کاشمار بھی انہی عظیم المرتبت افراد میں ہوتا ہے جو زمانے کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کا فن جانتے ہیں ۔محبتوں ،چاہتوں اور امن کی اس سفیر کے لیے جتنے بھی تعریفی الفاظ لکھے جائیں کم ہیں ۔میری دعا ہے کہ رب تعالیٰ اس کے قلم میں مزید دلو ں میں اتر جانے والی تاثیر پیدا کرے آمین ۔آخر میں رقیہ غزل کی اس غزل کے ساتھ اجازت۔

جب تعلق ہی بے یقیں ٹھہرے
کیسے دل کا کوئی مکیں ٹھہرے
کب تلک میں رہوں سرابوں میں
میرے پائوں تلے زمیں ٹھہرے
کتنے مہتاب ساتھ ہیں میرے
وہ ستارہ ہی کیوں حسیںٹھہرے
ساری دنیا اس کی دیوانی
وہ جہاں جائے دل نشیں ٹھہرے
جو تری یاد میں کہے جاناں
شعروہ ہی مرے نگیں ٹھہرے
اک مسافت کے بعد جانا ہے
ہم جہاں سے چلے وہیں ٹھہرے
تھک چکی ہے غزل سخن گوئی
ہو رسا ان کو تو کہیں ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی