خواتین پر تشدد اور انور مقصود

Women Violence

Women Violence

تحریر : روہیل اکبر

کچھ دنوں سے خواتین پر تشدد کے حوالہ سے مسلسل ویڈیوز سامنے آرہی ہیں خاص کرکچھ گھٹیا اور ذہنی طور پر گندے انسان شائد جن کی پیدائش کسی بدبودار گٹر کے اندر ہوتی ہوگی لڑکیوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرکے سمجھتے ہیں کہ شائد وہ بچ جائیں گے ایسا ممکن نہیں ذلالت اور کتے کی موت انکا مقدر تو ہوگی ہی ساتھ ساتھ انکے گھر والے بھی ساری عمر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے بلکہ ہر کوئی ایسے گھٹیا اور کمینے شخص کے منہ پر تھوکے گا ضرورکچھ لوگ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا کر اپنے آپ کو شائد مرد سمجھتے ہونگے مگر اندرسے غلیظ، ذہنی بیمار اور گھٹیا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ باہر سے بھی کہیں زیادہ بزدل،منحوس اور لعنتی ہوتے ہیں جنکے والدین کی گھٹیا تربیت ساری عمرانہیں چین اور سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی جبکہ بیوی بچوں سے دوستانہ ماحول رکھنے والا انسان ذہنی طور پر بھی مطمئن رہتا ہے اور آنے والی زندگی میں بھی اسے اپنے بچوں سے ٹھنڈے ہوائیں ملتی رہتی ہیں جوانی میں مار پیٹ کرنے والے افراد بڑھاپے میں ذلیل وخوار تو ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ نفرت کا سبب بھی بنتے ہیں اگر ہم میں تھوڑی بہت انسانیت موجود ہو تو پھر یہ بات بھی ہمیں سمجھ جانی چاہیے کہ عورت اگر بیٹی ہے تو رحمت، ماں ہے تو جنت اور بیوی ہے تو شریکِ حیات جو ہر اچھے برے وقت میں آپ کا ساتھ نبھانے والی، قدم بقدم چلنے والی ذات ہے۔ نبی اکرمﷺ کے وجود سے قبل عورت کی معاشرتی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی اور آپ نے خواتین کو عزت و مقام اور ایک بلند مرتبہ دلوایا، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر جہالت کا دور دوراں ہے۔

آج پھر سے خواتین اتنی ہی تکلیف میں مبتلا ہیں جتنی کہ دورِ جہالت میں تھیں، اس وقت بھی خواتین کی عصمت دری اور غلامی کی زندگی عروج پر تھی اور آج بھی بالکل ویسا ہی ہے آج کے دور اور ماضی کے دور میں فرق ہے تو وہ سوچ کا ہے، ماحول کا ہے، پڑھائی لکھائی اور فرقوں کا ہے، اس کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا فرق عیاں ہو کچھ بد کردار، بد اخلاق لوگ ایسے بھی ہیں جو خواتین کو اب بھی پاؤں کی جوتی ہی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے روز خواتین کی ساتھ زیادتی اور ان کو تشدد کرکے قتل، عزت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، مگر پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ ملزمان کو جیل ہو جاتی ہے اور پھر ان کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے، ملزمان دندناتے پھرتے ہیں مگر انصاف کی راہیں دیکھتی خواتین اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھی ہونٹ سی کر برداشت کرلیتی ہیں اسی ماہ جولائی ہی میں ایک کے بعد ایک واقعہ ہواجس میں قرۃ العین عمر، نور مقدم، صائمہ اور خدیجہ نامی خواتین کے ساتھ ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔

قرۃ العین کی بات کریں تو اس کی کیا غلطی تھی؟ 10 سال تک شوہر کا ظلم و ستم سہتی رہی، کتنی مرتبہ والدین کے گھر لوٹی، مگر بھائیوں نے اپنی عزت کی خاطر کے خاندان والے کیا بولیں گے؟ بس اس ڈر سے بہن کو ایک ظالم کے ہاتھوں بندھا رہنے دیا جس کا نتیجہ آخر کار تشدد کی موت نکلا کہ اس کی ہاتھ، ناک، کان اور منہ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ 4 سالہ چھوٹی بچی ماں پر ہونے والی ظلم کا احوال بتاتے ہوئے رو پڑی اور کہا کہ پاپا میری امی کو بہت مارتے تھے، روزانہ رات کو وہ امی کو مارتے رہتے اور امی رو رو کر چپ ہو جاتی کیونکہ امی کی بات کوئی نہیں سنتا تھا پھر آپ نے دیکھا کہ کس طرح بیوی کو مارنے کے بعد ویڈیوز میں ملزم عمرجھومتا رہا، رقص کرتا رہا؟ کیونکہ وہ ایک بااثر باپ کی اولاد ہے، اس کو سزا نہیں ہوگی وہ بچ جائے گا اس فخر سے سرِعام بیوی کا قتل کرکے بھی گھوم رہا ہے؟ آخر کیوں؟ ہماری پولیس جس کا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔

خیال کرنا ہے وہ چند لاکھ روپے کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہونے دیتی ہے؟ ایسے واقعات میں پولیس کا کردار کم و بیش 70 فیصد منفی ہی دیکھا جاتا ہے گندے اور غلیظ خون کی پیداوار ایسے نامرد ظالموں کے ساتھ ایسے پولیس والوں کو بھی پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔صائمہ رضا کی بات ہو تو اس معصوم کا کیا قصور تھاا؟ صرف یہی کہ وہ اپنا گھر بچانے کی خاطر ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں جو انسان نما حیوان اور درندہ تھا،خدیجہ صدیقی جوکہ خود ایک وکیل تھی جو دوسروں کو انصاف دلواتی تھیں یہ خود مر گئیں، حیدرآباد میں عمر خالد میمن نامی شخص نے اپنی اہلیہ اور 4 بچوں کی ماں قرۃالعین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا نْور مقدم کا کیس توبلکل واضح ہے ایسے ملزمان کے ساتھ ساتھ انکے والدین کو الٹا لٹکا دینا چاہیے آخر کب تک اس قسم کے واقعات ہمارے سامنے آتے رہیں گے اور ہمارا ضمیر ملامت کرتا رہے گا؟ ان سب کیسز کا جائزہ لیا جائے تو تربیت اور سوچ ہی وہ یکساں جْز ہے جو سب کیسز میں دکھائی دے رہا ہے اور بااثر باپ کی اولاد ہونا یا پیسے والا ہونا مجرموں کو بلا خوف نڈر بنا رہا ہے۔

جب تک ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی غلطیوں پر سخت ردِعمل کا اظہار نہیں کریں گے، اپنا فرض پورے طریقے سے نہیں نبھائیں گے شاید ہم ایسے واقعات سنتے رہیں گے اور نوجوان یا ایسے افراد جن کی سوچ میں اس حد تک منفی رویہ ہوگاانہیں جب تک کڑی سزاؤں سے نہ گذارا جائے تب تک ہم سدھر نہیں سکیں گے ہر ایک مجرم کو سخت سزا یا پھانسی کی سزا سنائیں اور ان کے وہ والدین جو اس جرم میں ان کی پردہ پوشی کر رہے ہیں ان کو بھی قیدِ بامشقت کی سزا سنائیں تو انصاف کا بول بالا ہوتا نظر آئے گا اور اس سلسلہ میں پنجاب حکومت قانین میں ترمیم بھی کررہی ہے جسکا آنے والے دنوں میں اطلاق ہوجائیگا بلا شبہ اس وقت پنجاب حکومت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،مشقت اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے حوالہ سے بہت سے اقدامات اٹھا رہی ہے آخر میں انور مقصود کی ایک خوبصورت بات کہ میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں کیونکہ مجھے زندگی میں جو کرنا چاہئے تھا میں نے وہ نہیں کیا 60 برس صرف لوگوں کو ہنسایا مجھے بچوں کو تعلیم دینی چاہئے تھی کیونکہ اس سے تبدیلی آتی اور یہ میں نے نہیں کیا۔اب بھی وقت ہے کہ ہم حیوان سے انسان بن جائیں زندگی صرف ایک پل کی ہے جانے کے بعد لوگ دعاؤں میں یاد رکھیں نہ کہ تھو تھو کریں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر