صنف نازک اور فطری ذمہ داریاں

Women

Women

تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی

حضرت آدم علیہ السلام جیسے اولین انسان جو اللہ تعالی کے پہلے نبی بھی تھے، جنت جیسی جگہ پر بھی جب ان کادل نہ لگاتو اللہ تعالی نے حسن رفاقت کے لیے حضرت اماں حوا کاساتھ عطاکیا۔یہ فطری کشش ہے جو مرد اور عورت کے درمیان اللہ تعالی نے پیدا کر دی۔اس اولین اور مقدس و محترم انسانی جوڑے کی تاسیس کے ساتھ ہی شیطان لعین بھی ان دونوں کے درمیان آن موجود ہوا۔بائبل کے مطابق ابلیس نے حضرت اماں حوا کو بہکایااور اماں حواکے کہنے پر حضرت آدم علیہ السلام نے اس شجرممنوعہ کا پھل کھالیااوریوں کل ذمہ داری عورت پر ڈال دی گئی۔جب کہ قرآن مجیدکے مطابق شیطن نے دونوں کو بہکایااوراس طرح اللہ تعالی کی اس آخری کتاب نے عالم نسوانیت کادفاع کیا۔مرد اورعورت کے درمیان شیطان کا درآنا اتناہی قدیم ہے جتنا کہ حضرت انسان خود۔پس اب یہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شیطان سے مل کر مقابلہ کریں اور اپنے خالق کی قائم کی ہوئی حدود کاپاس ولحاظ کرتے ہوئے معاملات حیات میں اپنے اپنے دائرہ ہائے عمل میں باہمی ذمہ داریاں انفراداََ و اجتماعاََاداکرتے چلے جائیں۔چونکہ مردوزن کے درمیان تعلقات کی افراط و تفریط کابراہ راست اثر آنے والی نسل پر پڑتاہے تواسی لیے نتیجے میں انسانی معاشرے میں توازن اور عدم توازن کاسوال بھی جنم لیتاہے۔

قدیم یونانی علمائے بشریات کے ہاں عورت کے بارے میں ایک طویل بحث ملتی ہے جس میں موٹی موٹی کتابیں تحریر کی گئیں اور اس بحث کاعنوان عورت کے انسان ہونے کے بارے میں تشکیک کی تحقیق تھی۔علماء کاایک گروہ اس بات پر بضدتھاکہ عورت انسان نہیں ہے،اس گروہ کے اپنے دلائل تھے جب کہ دوسراگروہ عورت کواگرچہ انسان ماننے پر مصر تھالیکن اس گروہ کے ہاں بھی عورت کی حیثیت دوسرے درجے کے انسان کی تھی۔ اوریونان جیسے مہذب و متمدن ملک میں بھی بسنے والے مرد بھی عورت کواپنے برابر ماننے کو تیارنہیں تھے۔قدیم یونان میں عورت پرمردانہ تسلط پوری طرح غالب تھااورتعلیم سے محروم عورت کی ساری عمر گھرمیں لونڈی ،کنیزاور باندی کی طرح گزشتہ،موجودہ اورآئندہ نسل کی خدمت داری میں گزرجاتی تھی،اسے اپنی اشیاء پر حق ملکیت حاصل نہ تھااوراپنی ہی زیراستعمال اشیاء کی اپنی مرضی سے خریدوفروخت نہیں کرسکتی تھی،اپنی مرضی سے نکاح کرنا تو کسی طوربھی ممکن نہ تھااور عورت کے حق وراثت کاکوئی تصورتک موجود نہ تھا۔یونان کے اس معاشرے میں مردوں کو عورتوں پر مکمل حق دسترس حاصل تھااور اپنی عورتوں کو دوستوں کے سپرد کر دینااور نذرانے کے طورپرپیش کردینے کابھی عام رواج تھااور قانون میں بھی یہاں تک رقم تھا کہ کمزورمردوں کو چاہیے کہ اپنی بیویاں صحت مندمردوں کے حوالے کردیاکریں تاکہ تنومندفوجی جنم لے سکیں۔بعض یونانی فلاسفہ نے توعورت کو منحوس تک لکھاہے۔افلاطون نے عورت کے لیے جن مراعات کاذکرکیا وہ کتابوں سے باہر نہ نکل سکیں۔

روم کی تہذیب نے یونانیوں کا تاریخی خلا پرتوکیالیکن رومیوں کاکرداربھی عورتوں کے معاملے میں مایوس کن ہی رہااورانہوں نے بھی عورتوں پر ظلم و تشدد اور زورآوری کوجاری رکھا۔رومیوں کے ہاں عورت کے ساتھ سنگ دلی اور سختی یونانیوں طرح جاری رہی۔عورت کے ساتھ شادی کامعیارلذت نفسانی تھا اور شوہر کادل جب بھرجائے تواسے بیوی کوقتل کرنے کاقانونی حق حاصل تھااور شوہرکو یہ اختیار بھی حاصل تھاکہ جس طریقے سے چاہے اسے قتل کردے۔رومی ریاست میںعورت کو کوئی قانونی حقوق حاصل نہ تھے،گواہی،وراثت،ملکیت ،بیع و شرا سمیت کسی بھی طرح کے سرکاری و معاشرتی مناصب اور عہدوں کے لیے عورت کی اہلیت ناقابل اعتناتھی۔جب کبھی دولت اور وسائل حیات کی ضرورت پڑتی تو مرد حضرات گھرکی خواتین کو بیچنے تک میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔عورت کی اس پسماندگی کے باعث یونان اور روم کی دونوں عظیم الشان تہذیبوں کی صدیوں طویل تاریخ اور براعظموں کی وسعت میں پھیلے ہوئی ریاستوں میں کسی قابل ذکر خاتون کا ذکرنہیں ملتا۔اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ اس زمانے کی عورت صلاحیتوں سے خالی تھی بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ عورت کو اس کی جائز حیثیت نہیں دی گئی اوراسے صرف لذت نفسانی اور نوکری چاکری کے لیے رکھاگیاتھا۔

طلوع اسلام کے وقت عرب میں زندہ درگورہونے والی بچیاں،ایران میں نذر آتش ہونے والی عورتیں، یورپ میں قدیم یونانی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھنے والی خواتین،چین ،جنوبی ایشیاء ،عراق میں بابل کی تہذیب کی باقیات اور ہندوستان میں شوہرکی چتاکے ساتھ ستی ہونے والی عورت سمیت پوری دنیامیں ظلم کی ایک چکی تھی جس میں صنف نازک نسل در نسل پستی چلی جارہی تھی۔یہاں تک کہ اللہ تعالی کو عالم انسانیت پررحم آیااوربقول قرآن مجیدکے” وَ کُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاَ(٣:١٠٣)”ترجمہ:”تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ،اللہ تعالی نے تم کواس سے بچالیا”۔خاتم الانبیاء ۖدراصل محسن نسوانیت بن کر آئے اور کل انسانیت جو انبیاء علیھم السلام کا درس انسانیت فراموش کرچکی تھی آپ ۖ نے اس درس کی تجدید کی اور تاسیس نو کے ذریعے اس سبق کوایک بار پھر نسل آدم کو ازبر کرایا۔حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کے باعث ہی قبیلہ بنی نوع آدم کو مقام انسانیت عطا ہواہے ۔اگرانبیاء علیھم السلام تشریف نہ لاتے تو جنگل کابادشاہ انسان ہی ہوتا۔آپۖنے عورت کوہی اس کا مقام عطاکر کے گویا کل انسانیت کواحسان مندکیا۔آپ ۖایک بار اپنے صحابہ کے ہمراہ صرف خواتین سے ملنے کے لیے ایک بندگڑھی میں تشریف گئے،آپ نے تین بار سلام کیالیکن خواتین میں سے کسی نے جواب نہیں دیاجب آپۖ باہر نکلنے لگے تو سب خواتین بلندآوازسے جواب دیا،اور استفسارپر عرض کی کہ اگرپہلی دفعہ میں جواب دی دیتیں توباقی دودفعہ کے محسن نسوانیت ۖکی زبان مبارک سے اداہونے والے دعائیہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔

اسلام نے عورت کو جائزفطری مقام عطاکیااوراسے پستی سے نکال بلندی پر سرفراز کیااورزمانے سے تشددسے اسے پناہ عطاکی۔ماں بننے پرجنت جیسااعلی مقام عورت کے قدموں میں لاکررکھ دیا،حج اورعمرہ میں سعی بین الصفاوالمروہ ایک مقدس و محترم خاتون کی سنت ہے جس کی ادائگی سے ہی یہ عبادات تکمیل پزیر ہوپاتی ہیں۔مسجدحرام میں ایک نمازکاثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ملتاہے لیکن صرف خواتین کے لیے حج کے مناسک میدانوں میں رکھے گئے تاکہ لمبے سفرکے بعد کوئی خاتون اسلام اپنی فطری مجبوری کے باعث حج سے محروم نہ ہونے پائے۔اسلام نے عورت کی نسوانیت کااحترام کرتے ہوئے اس کے ذمے صرف اس کی فطری ذمہ داریاں سپرد کیںاورگھرکے اندراسے خانگی ذمہ داربنایا،اس کے پیٹ میں انسانیت کی امانت رکھ دی،اس کے سینے میں پرورش نسل کے لیے پھوٹتے ہوئے شیریں چشمے ابلنے لگے،اس کے دل میں مامتاجیسے جذبات انڈیل دیے۔شان کریمی ملاحظہ ہو کہ رب تعالی کے لیے دنیامیں کوئی کفواورکوئی استعارہ اور کوئی تشبیہ موجود نہیں ہے لیکن پھربھی اللہ تعالی جیسی ہستی نے بھی اپنی رحمت کے بحربے کنارکی تفہیم کے لیے ماں کی محبت کااسلوب لیاکہ ماں سے سترگنازیادہ پیارکرتاہوں۔بیٹی کو خداکی رحمت قراردیااور حق وراثت،حق شہادت،حق ولایت،حق وصیت اور حق نکاح و خلع جیسے کتنے ہی قانونی و معاشرتی حقوق عطاکیے۔آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک خاتون حضرت خدیجہ،سب سے پہلے شہیدہونے والی ایک خاتون حضرت سمیہ،آپۖکو سب سے پیاری اورجگرگوشہ بھی ایک خاتون حضرت فاطمہ اور داعی اجل کو لبیک کہتے آپ کا سرمبارک بھی ایک خاتون حضرت عائشہ کی گود میں تھا۔

Women Violence

Women Violence

وسط ازمنہ میں یورپی صنعتی انقلاب کے بعد جب مغربی مفکرین وحی الہی کے علی الرغم چل نکلے توایک بارپھرماضی کی طرح عورت ظلم کی چلی میں پسنے لگی ہے۔آج سیکولرمعاشروں میں عورت کو معاش کی آگ میں دن رات جلایاجاتاہے،سیاست کے میدان میں لاکر عورت کی نسوانیت کو اقتدارکی بھینٹ چڑھادیاجاتاہے،تھانوں،عدالتوں،کچہریوں اورکٹہروں میں عورت کو گھسیٹ کراسے گویا زندہ درگورکیاجارہاہے اورآزادی نسواں کے نام پر بدکاری کی آزادی فراہم کر کے عورت پر تاریخ کا بدترین تشددکیاجارہاہے۔سیکولرازم نے عورت کو اس کی فطری ذمہ داریوں سے محروم کرکے اس پر نفسیاتی تشدد روارکھاہے،اس کے پیٹ سے نسل انسانی کو نکال کراسے جنس بازاربنادیاہے،اس کی گودسے بچہ چھین کراسے ٹائپ رائٹراور لیپ ٹاپ تھماکراسے اس کے گھرکی فطری ذمہ داری سے معزول کرکے اسے دفتروں،بازاروں اوردیگرصنعتی وکاروباری اداروں میں تفریح طبع کاسامان بناکر اس کی عفت و عصمت کو تارتارکردیاہے اورلبرل ازم نے اس کے سینے میں ابلتے ہوئے جنت کے چشموں سے نسل انسانیت کومحروم کر کے اسے اپنی حرس و ہوس کا نشانہ بنادیاہے۔سیکولرازم کے ہاں عورت کی یہ بھیانک تصاویرآج ننگ انسانیت ہیں۔تاریخ انگشت بدنداں ہے کہ مغربی دنیاسے یہ ننگ نسوانی ثقافت بہت خوبصورت نعروں میں لپیٹ کر ایشیائی معاشروں میں درآمدکی جارہی ہے۔لیکن اگرعورت کوسیکولرازم اورلبرل ازم کے تشددسے نجات دلانی ہے تواس کاواحد راستہ انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہی ہیں۔