مزدور کا دن، مزدور کے بن

Child labor

Child labor

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر

مائہ مئی میں یوم مزدور، ریلیاں، جلسے، سیمینار، کھابے، فوٹو سیشن اور بس۔۔۔اس کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے یکم مئی کو ؟اور جس کے نام پر یہ دن منایا جا تاہے وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز حسب معمول اپنے کام میں جتا رہتا ہے۔ میں نے آج تک لیبر ڈے کے ہزاروں سیمینارز اور پروگرام دیکھے ہیں جن میں میں نے ایسے راہنمائوں کو تو دیکھا جن کی سواری کم از کم پراڈو ہوتی ہے ،انکا ایک سوٹ مزدور کی کم و بیش چھ ماہ کی اجرت کے برابر قیمتی ہوتا ہے دس سے پندرہ ہزار مالیت کے جوتے زیب پا کئے امپورٹڈ پرفیومز کی خوشبوئوں میں نہائے ہوئے یہ راہنما ، نام نہاد مزدور لیڈر ،بدیسی فنڈنگ پہ چلنے والی NGOsکے کارندے جن کے سوٹ پر شکن تک نہیں ہوتی وہ مزدور کی پیشانی کی شکن ،اسکے بدن کی تھکن اور اسکے سینے میں اٹھنے والی چبھن سے آشنا تک نہیں ہوتے وہ لوگ کیا جانیں کہ مزدور کو ایک وقت کے لئے اپنا چولہا جلانے کے لئے اپنے وجود کو ایندھن بنانا پڑتا ہے۔

پانچ ستاروں کے حامل ہوٹلوں کے ٹھنڈے ہالوں میں بیٹھ کر مزدور کے نام پر سیمینار منعقد کر کے اپنے پیٹ کے دوزخ کو مہنگے ترین لنچ اور ڈنر سے بھر کر فوٹو سیشن کرنے والے کیا جانیں کہ جس مزدور کے حقوق کی بات وہ اپنے ہی جیسے کروڑ پتیوں میں تقریر کے نام پر اپنے بیرونی امدادی فنڈ پکے کر رہا ہے اور لاکھوں روپیہ کما رہا ہے اس مزدور کو ان لاکھوں میں سے کبھی چند سو دینے کی توفیق ہوئی ہے ان نام نہاد لیڈران مزدوراں کو ؟یقینی طور پر جواب نفی ہی میں ہو گا ۔یوم مزدور کی چھٹی بھی انجوائے کرتے ہیں تو افسران مزدور بیچارہ تو اس دن بھی اپنے دال دلیے کی فکر میں مگن کام میں محو ہوتا ہے کیا کبھی کسی سرمایہ دار نے اسے سال میں ایک بار صرف لیبر ڈے پر ہی کہا ہو کہ دنیا آج آپ کا دن منا رہی ہے آج آپ بیٹھیں اورا ج آپ کی خدمت کا فریضہ میں انجام دوں گا اور اجرت بھی آپ کی میرے ذمہ ہو گی۔

گھروں میں کام کرنے والی آیا بھی تو ایک مزدور ہی ہے نہ کیا اس دن گھر کی مالکن کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ باجی ماسی یا بواء آ ج دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن ہے آج ایک دن کے لئے میں کام خود کرتی ہوں اور آپ میرے ساتھ اپنا دن منائیں ؟کیا کبھی دیکھنے کو ملا ہے کہ تعمیراتی کسی بھی کمپنی نے اپنے پراجیکٹ پہ کام کرنے والے کسی مزدور کو اس دن چھٹی بھی دی ہو اور اجرت بھی ؟کیا کبھی کسی نام نہاد لیڈر نے یکم مئی ہی کو سہی اپنے کسی ملازم کو کہا ہو کہ آج میں کام کرونگا اور آپ آرام کر کے بھی تنخواہ پوری پائیں گے آپ کی اجرت کٹے گی نہیں ؟نہیں تو اپنے اسلاف کی زندگی ہی کو دیکھ لو کہ وہ مزدور کے ساتھ کیا رویہ روا رکھے ہوئے تھے حضرت علی کا دور خلافت تھا ان کے پاس حضرت میثم تمار کھجوریں بیچا کرتے تھے آپ انکے پاس تشریف لے جاتے اور فرماتے میثم صبح کے بیٹھے کھجوریں بیچ رہے ہو اب تھوڑا آرام کر لو گھر جا کر تمہارے حصے کی کھجوریں میں علی ابن ابی طالب بیچوں گا۔

ہم میں سے کبھی کسی کو یہ توفیق ہوئی کیا کہ ایک مزدور کے آرام کا خیال کر لیں ہمارے اسلاف تو ایسے تھے کہ اگر سفر میں اونٹ پر سوار ہیں اور اونٹ کی نکیل غلام کے ہاتھ میں ہیء سفر لمبا ہے تو نصف سفر کر کے غلام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ اب تم اونٹ پر سوار ہو جائو اب اونٹ کی مہار پکڑ کر پیدل میں چلوں گا یہ تھا انسانیت کا درس اسے کہتے ہیں حقیقی سوشل ورکنگ اپنے اسلاف کی تعلیمات کو تو ہم نے بھلا ہی دیا ہے اور یوم مزدور یا لیبر ڈے ہم مناتے بھی ہیں تو شکا گو کے مزدوروں کی یاد میں ہمارے دین نے شکاگو کے واقعے سے کئی صدیاں پہلے اس بات کا درس دیا کہ مزدور یا غلام کے ساتھ برتائو کیسے کرنا ہے مگر ہم کیوں چلیں اپنے اسلاف کی پیروی کرنے انگریز نے دن منایا تو ہم نے بھی اسی کی اقتدا میں منانا شروع کر دیا ذرا یہ سیاسی پنڈت ،بیوروکریٹ،این جی اوز کے پیرو کار ،صنعتکار،بزنس مین ،خود احتسابی کرتے ہوئے سوچیں کہ کیا ہم مزدور کو اپنے ہاتھوں وہ حقوق دے رہے ہیں جن کا واویلا ہم ریلیوں ،جلسوں ،سیمیناروں میں کر رہے ہوتے ہیں ؟کیا صنعتکاراپنے مزدور کو اس کی محنت کے مطابق اجرت اور دیگر سہولیات دے رہا ہے ؟کیا بزنس مین اپنے ورکروں کو بمطابق قانون اجرت اور دیگر مراعات بہم پہنچا رہا ہے ؟

چائلڈ لیبر پر کام کرنے والی این جی اوز کیا پوری ایمانداری کے ساتھ فنڈنگ ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر رہی ہیں یا ان ورکر بچوں کے نام پر قائم کئے گھوسٹ سکولوں کو صرف فنڈنگ ڈکارنے کے لئے چلا رہے ہیں ؟صحت کی سہولیات کو ہی دیکھ لیں کہ ایک مل اونر نے دو ہزار مزدوروں میں سے بمشکل دو سو کو سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کئے ہوئے ہیں باقی اٹھارہ سو مزدوروں کو صحت کی ضرورت ہی کیا ہے چنگے بھلے ہٹے کٹے تو ہیں پندرہ ہزار تنخواہ بھی چند ہی ملز ہوں گی جو ایک مزدور کو دے رہی ہوں گی اب بھی کئی جگہ پہ دس سے بارہ ہزار دیا جاتا ہے مزدور کو اورڈیوٹی بارہ گھنٹے لی جا رہی اور پھر یہی مزدور کش لوگ یوم مئی کو بڑے دھڑلے کے ساتھ سیمنارز کی صدارت فرما رہے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ یوم مئی مزدور کا اور گلچھرے امراء کے واہ واہ کیا کہنے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان مزدور لیڈروں جو کہ درحقیقت خود مزدور نہیں ہوتے بلکہ مالکان کے نوازے ہوئے اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

انہوں نے فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ یوم مئی کے سیمینار میں دھوپ سے جھلستے بدن اور پسینے سے شرابور کو ئی مزدور بھی ان امراء نے مدعو کیا ہوا ہو یا اس عظیم مزدور سے یہ پرفیومز میں نہائے ہوئے لوگ اس حالت میں بغلگیر ہو رہے ہوں جب ان کے ملبوس پہ پیرس میڈ پرفیوم اور اس مزدور کے بدن پر وہ مہکتا ہوا عطر بہہ رہا ہو جو اس نے محنت کرتے ہوئے اپنے وجود سے کشید کیا ہوا ہو ارے یہ مزدور کے نام کا دن منانے والے لوگ مزدور سے ہاتھ ملانا توہین سمجھتے ہیں اور اگر ملا بھی لیں تو بار بار اینٹی سیپٹک سے ،سیف گارڈ سے یا پھر ڈیٹول سوپ سے ہاتھ دھوتے ہیں کہ مزدور کے ہاتھوں سے کوئی جراثیم ان کو نہ لگ گیا ہو ۔ واہ رے میرے پاکستانی مزدور تیری قسمت یکم مئی تیرا ہی دن ہے جو تیرے ہی بن منا کر یہ جھوٹے خیر خواہان مزدور تیرے صدقے میں دنیا بھر سے فنڈنگ کھا رہے ہیں کبھی تیری صحت کے نام پر ،کبھی تیری تعلیم کے نام پر ،کبھی تیری سہولیات کے نام پر میں فخر سے کہتا ہوں کہ یہ تہی دست امرا ء جن کا پیٹ کروڑوں ڈکار کر بھی نہیں بھرا فقط اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ہاتھ پھیلائے میرے مزدور کا صدقہ کھا رہے ہیں جو اس مزدور پر لگانا ہوتا ہے وہی پیسہ یہ اپنے کسی نئے پراجیکٹ کی تکمیل پر لگا کر اس پر مزدور کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں یعنی وہی وہاں کام کر رہا ہوتا ہے جس کے پیسے سے یہ تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہٰذا مزدور کا دن ،مزدور کے بن ہی منایا جاتا رہا ہے ،منایا جاتا رہے گا اور مزدور کے نام پر یہ سب بھیک منگے عیش کرتے رہیں گے۔

Dr MH Babar

Dr MH Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail:mhbabar4@gmail.com