میری جنت میرے عمل سے

Heaven

Heaven

تحریر : شاہ بانو میر

اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکی قند

میں اس آرٹیکل میں لکھ سکتی تھی وہ تمام جملے جو
پڑہنے والوں کو جزباتی طور پر خوش کریں
اور
واہ واہ کر سکیں
لیکن
خوش فہمیوں کا دور اب ختم ہونا چاہیے
حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا
ہم نے اپنے آپ سے اپنی نسلوں سے اپنے دین کہاں کہاں
غفلت برتی احساس کرنا ہوگا
آج اسلام کے فروغ کیلئے ہر طرف شور ہے
عملی اقدامات پھر بھی نہیں
صرف پیغامات اور اشتعال پر مبنی مقالاجات ہیں
یاد رکھیں
کامیاب قوم توازن قائم رکھتی ہیں
سیاست میں رہنما سے تعاون ایک حد تک
باقی زندگی کے شعبوں کو کوئی مفلوج نہیں کرتا
مگر
کیونکہ
قرآن ہم نے پڑہا نہیں
اپنی ذمہ داری بطور مسلمان کیا تھی ہم نے جانی نہیں
لہٰذا
ہم گُم ہو گئے
ملک میں کسی کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں
سوائے
بے مقصد سیاست میں خود کو مصروف رہنے کے
اور
اس کا خمیازہ آج بھگتا جا رہا ہے
بڑی خاموشی کے ساتھ
بے دینی ہمارے گھروں میں ان تعلیمی اداروں کی وساطت سے آن پہنچی ہے
جہاں والدین نے مغربی سوچ کی وسعت حاصل کرنے کے لئے
لاکھوں خرچ کر کے بچوں کو داخلہ دلوایا
آج نتیجہ سامنے آ رہا ہے
ان بچوں کو اسلام اصل شناخت ہی نہیں ہے
یعنی گمشدہ نسلیں ادارے تشکیل دے چکے
سب کے رنگ فق ہو رہے ہیں
غیر اسلامی سوچ کے حامل تعلیمی ادارے بچوں کو
لبرل سیکولر سوچ دے گئے
آج والدین جب انہیں سمجھاتے ہیں
تو وہ منقسم دین کے علماء کرام کا نام سنتے ہی
ناک سکوڑ کر بیزارگی کا اظہار کرتے ہیں
قطرہ قطرہ زہر آزادی رائے کی صورت
ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے
ہم اپنی سیاسی ہربڑی میں دیگر معاملات کو پرکھنا ہی بھول گئے
کیسے خاموشی سے وہ کام پھیلاتے رہے
ہم ایک دوسرے کو ہر شعبہ میں گراتے رہے
اور
وہ اپنی سوچ کو ملک میں مضبوط کرنے میں
بیرونی قوتوں کے ساتھ کامیاب ہو گئے
آج دین کا شیرازہ بکھر رہا ہے
اور
ایک چھوٹے فرقے نے ملک کے اندر
اپنے عمل سے ایک یکجان ہو کر
اپنی سوچ کو پروان چڑہایا
آج ملک میں چیخ و پکار ہے
اس فرقے کو روکا جائے
کیسے روک سکیں گےآپ؟
کیا کسی عالم کی چھتری اتنی وسیع ہے
کہ
اسلام دشمن قوتوں کو بھرپور جواب دینے کے لئے
دین کے لئےکسی ایک کے پیچھے اکٹھے کھڑے ہوں؟
اسلام کا کلمہ ہے
لا الہ الہ اللہ
یعنی
اللہ (قرآن ) سے زندگی کی بنیاد رکھو
محمد الرسول اللہ حدیث سنت سے
قرآن کو آسان کرکے
اپنی زندگیوں کو ایک ہی راستے”” مستقیم”” پر چلا سکو گے
آج ہر ایک کا صراط مستقیم اسکی انفرادی سوچ پر مبنی ہے
اور
ذہنوں میں ایک دوسرے کے خلاف تنفر اتنا ہے
کہ
ایک فرقہ دوسرے فرقے کی بات مجبوری سے سنے بھی
تو
دل ہی دل میں شائد استغفار کا ورد کرتا ہے
کہ
اللہ مجھے معاف کرنا مجھے مجبورا
اس کو سننا پڑ رہا ہے
جہاں
اسلام کا ایک رخ ہی نہ ہو
وہاں یونہی اصل اسلام ختم ہوتا ہے
آج کے دور کے بچے بہت سادہ اور سیدھے ہیں
اپنے بڑوں کی طرح جلیبی انداز ،نہیں رکھتے
وہ اسلام دشمن قوتوں کو جب
ایک عمل کے ساتھ آگے بڑہتے دلیل سے پرکھتے ہیں
تو
گھر کا کمزور اسلام چھوڑ کر وہ
اُس جانب مائل ہوتا ہے
جہاں
کوئی کسی دوسرے کی برائی نہیں کرتا
کافر نہیں کہتا
نقصان ہو چکا تو
آج ہم چونک اٹھے
اسی لئے
آج سوشل میڈیا ہے
یا پھر میرا
اِن باکس میسجز سے بھرا ہوا ملتا ہے
کہ
آواز اٹھائیں لکھیں
پاکستان میں بڑہتے ہوئے
ان کے دینی عمل کو روکنے کے لئے
میں صرف یہی سوچتی ہوں
کہ
صبح سے شام تک
عام پاکستانی سبزی روٹی کیلئے بھاگ دوڑ کرتا ہے
پرکھتا ہے
اور
اصل
اس کی ذات کی پہچان اسکی شناخت اس کا عمل
سارا دن قرآن سے دوری سے
بات بات پر جھوٹ ریا کاری منافقت پر مبنی زندگی گزارنے والا
بچے کو کیا عملی نمونہ دے رہا ہے؟
بچہ اس کے اسلام سے کیسے متاثر ہوگا
جس میں سچائی نہیں انصاف نہیں
کوئی تبدیلی عمران خان یا کوئی اور نہیں لا سکتا
جب تک کہ
ہر ایک خود کو قرآن اور سنت حدیث سے نہ جوڑے
تبدیلی”” دل”” کے بدلنے سے ممکن ہوتی ہے
“”دل کی ہجرت””
دنیا کی سب سے مشکل اور کٹھن ہجرت ہے
یہ ہجرت
ازخود مشکلات کے باوجود ممکن ہو جاتی ہے
جب
آپ قرآن کو
لا الہ اللہ کو ترجمے سے نیک نیتی سے شروع کرتے ہیں
گمشدہ انسان خود کو تلاش کرتا ہے
اسلام پر بڑہتی ہوئی دوسری سوچ کی اجارہ داری کا خاتمہ
حکومت وقت سے نہیں کسی عالم دین نہیں
صرف اور صرف
مجھ سے آپ سے ممکن ہے
جب گھر گھر آغاز ہوگا
لا الہ الا اللہ کا
اور
محمد الرسول اللہ
سے دین کو سمجھا جائے گا

سوچیں
آج
کوئی نبیﷺ پر محیط زندگی کو اسلام کہتا ہے
کوئی صحابہ کرام کی پیروی کو اسلام سمجھتا ہے
کوئی اولیاء کرام کی تقلید پر نازاں ہے
کوئی صوفی ازم کو مکمل پرامن اسلام کہتا ہے
اور
کوئی بزرگان دین کی تعلیمات پر مُصر ہے
با شعور انسان ہی جان سکتا ہے
جس کو اللہ قبول کر کے
اپنے قرآن تک رسائی دے دے
اور
پھر
اس کا فہم بھی کھولے
کہ
اللہ ہمیشہ تھا
ہمیشہ ہے
اور
ہمیشہ رہے گا
نبیوں پر
اللہ کی کتابیں صحائف
جہالت کی تاریکی سے نجات
اور
اللہ کی پہچان کے لئے اتاری گئیں
قرآن کی 6666 آیات میں سے ایک آیت بھی نہیں پڑہی
جس میں
اللہ کی توحید پر ایمان اور نبیﷺکی پیروی کے علاوہ
کسی اور کی اطباع کا حکم دیا گیا ہو
اپنے رب اور اپنے نبیﷺ سے اپنا تعلق درست کریں
یہ آپکے انداز فکر کواصل سمت عطا کرے گا
اس کے بعد ہم سب
انشاءاللہ
جہاں کہیں بھی ہیں
پر خطر پُر خار راستوں سے گزرتے ہوئے
ایک ہی منزل پراکٹھے ہوں گے
صراط مستقیم
سوچ کو واپس مرکز پر لائیں
لا یعنی دینی تقسیم سے نکلیں
شعور الہیٰ
آج سے پہلے اتنا ضروری نہ تھا
دین کو ایسے ہی بچایا جا سکتا ہے
ہمارے اتنی اقسام کے دین کو دیکھ کر
ہماری نسلیں اسلام سے دور ہو رہی ہیں
آج کے بچے دلیل مانگتے ہیں
اور
مائیں ساکت جامد ہیں
کہ
جانتی ہی نہیں
قرآن میں اس کا کیا جواب ہے
صرف پوسٹ
ان مسائل کا حل نہیں
آپ کی اپنی ذات پر محنت کا سوال ہے
دوسروں کی محنت پر شور مچانا
مسئلے کا حل نہیں ہے
مجھے سامنے والے کی
ہر بات کا جواب پتہ ہونا چاہیے
تا کہ
میں اس کو لاجواب کر سکوں
اور
حق کو ثابت کر سکوں
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے
کہ
کم علمی اور اشتعال انگیزی سے
اب کام نہں چلے گا
ہمیں پڑہنا ہوگا
اور
اپنے آپ کو تعلیم سے جوڑیں تب مقابلہ کر سکیں گے
ورنہ
آج کی نسل کو تعلیم نے نیٹ نے شعور دیا ہے
وہ جزباتی نعروں کو
ہماری روایت سمجھ کر ہمیں نظر انداز کر دیتی ہے
ہمیں اسلام کا درست علم لینا ہوگا
پھر
اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جڑنا ہوگا
زبانی کلامی باتیں
اللہ تک نہیں پہنچاتیں
عمریں گزر جاتی ہیں
اس کی معرفت اور اسکی تلاش میں
ڈھونڈ لیجئے پا لیجئے
اپنے سچے رب کو
وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے
اور
جواب دیتا ہے
آزما لیجیۓ
لیکن
یقین کے ساتھ
بچ جائیں خود بھی اور بچا لیں
اپنی نسل کو بھی
قرآن کو ترجمے سے شروع کریں
اپنی سوچ کو استعمال کریں
سنی سنائی باتیں پر عمل نہیں
دلیل کے ساتھ دل کی گواہی لیں
کیونکہ
یہ آپ کی اپنی کتاب ہے
آپ کے مالک خالق کا
نجات کا خوشخبریوں کا پیغام ہے
آپ کے لئے
اس کو سننا پڑہنا ا ور سوچنا
پھر
عمل میں ڈھالنے کا حکم آپ کے لئے ہے
کسی پر الزام
قیامت کے دن
آپکو ہرگز نہیں بچائے گا
الزام ہر گز نہیں لگا سکیں گے
کیونکہ
دنیا کا ہر کام
آپ اپنی سوچ کے تحت کرتے ہیں
تو پھر
اپنی شناخت اپنی نجات
اپنی جنت خود ہمارے ہاتھ میں ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر