حاجی صاحب (پارٹ 1)

Haji Saheb

Haji Saheb

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

حاجی صاحب نے مزے دار موتی چور لڈوئوں کا ڈبہ کھولا ‘ مغزیات سے سجے بڑے سائز کے لڈو کو میری طرف بڑھا دیا ‘میں نے آدھا لڈو منہ میں ڈالا تو لذت شرینی ‘مغزیات کی لذت کی نہریں میرے حلق کو سیراب کرنے لگیں ‘ میں نے آنکھیں بند کر کے لذت سے بھر پور لہجے میںلڈو کی تعریف کی ‘ آنکھیں کھو ل کر آگے جھکا حاجی صاحب کے گھٹنے پر ہاتھ رکھا اور بولا حاجی صاحب خیر ہے جو آج صبح صبح آپ مٹھائی کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں تو حاجی صاحب کے چہرے پر مسرت و عقیدت کے پھول کھلنے لگے خوشی سے معمور لہجے میں بولے باباجی میری بیٹی کی بات پکی ہو گئی ہے ایک ماہ بعد اُس کی شادی ہے آپ تو جانتے ہیں میری کل کائنات میری رانی بیٹی ہے جس کے لیے میں پچھلے ایک سال سے آپ کے پاس آرہا تھا میری دن رات کی دعائیں قبول ہو ئیں آخر کار لڑکے کے ماں باپ مان گئے انہوں نے آکر رشتہ مانگا شادی کی تاریخ فکس کر دی خوشی سے حاجی صاحب کی آنکھوں میں ستارے جھملانے لگے ‘ میں نے حاجی صاحب کا پیار سے ہاتھ پکڑا اور شیریں لہجے میں بولا حاجی صاحب ایک بات تو بتائیں آپ رانی بیٹی کا باپ ہو یا ماں تو حاجی صاحب گلو گیر لہجے میں بولے میں رانی کی ماں ہوں میںنے اُسے ماں بن کر پالا ہے تو اچانک مجھے وہ دن یاد آگیا جب حاجی صاحب اپنی بیٹی کو میرے پاس لائے تھے دعا کے لیے تو میںنے یہی سوال رانی سے پوچھا کہ حاجی صاحب تمہاری ماں ہیں کہ باپ تو رانی حاجی صاحب سے لپٹ گئی حاجی صاحب کے سینے پر سر رکھ کرعقیدت کے آنسوئوں سے لبریز لہجے میں بولی یہ میری ماں ہیں میرا خدا میرا ایمان میرا قبلہ کعبہ ایمان کل کائنات میرا سب کچھ یہ ہیں یہ میری ما ں ہیں حاجی صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک سال پہلے ہوئی تھی۔

حاجی صاحب کا تعلق تیسری نسل مخنث سے تھا پہلی بار میرے پاس آئے تو دو چیلے ہیجڑے بھی ساتھ تھے یہ اُن کے گرو تھے حاجی صاحب نے فرمائش کی کہ علیحدگی میں ملنا چاہتے ہیں پھر علیحدگی میں بتایا کہ میری ایک بیٹی ہے جو اب پڑھ لکھ کر جوان ہو گئی ہے و ہ اپنے کلا س فیلو سے محبت کر تی ہے کلاس فیلو بھی رانی سے شدید محبت کر تا ہے لیکن میرا تعلق معاشرے کے جس طبقے سے ہے وہ ٹھکرایا ہوا ہے جس کو لوگ نفرت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں رانی نے اپنے محبوب اور اُس کے والدین کو کھل کر بتا دیا کہ اُس کا تعلق جس خاندان سے ہے تو لڑکے والوں نے انکار کر دیا جب لڑکے کے والدین نے انکار کر دیا تو حاجی صاحب اُن کو منانے کے لیے مختلف روحانی بابوں کے پاس جانا شروع ہو گئے ‘ میں نے حیرت سے پوچھا حاجی صاحب آپ کی اولاد تو ہو نہیں سکتی یہ بیٹی کیسے ہو گئی تو حاجی صاحب بولے کسی دن فری ٹائم ہو تو مجھے بلائیے گاآپ کو بتائوں گی رانی میری بیٹی کیسے ہے پھر ایک دن حاجی صاحب میرے پاس آئے تو بتا نے لگے میرا تعلق راولپنڈی کے امیر ترین خاندان سے ہے۔

مجھے خدا نے نا مکمل پیدا کیا ہوش سنبھالا تو معاشرے نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو میں اپنے جیسے لوگوں کے پاس چلا گیا وہاں سے پھر لاہور آگیا نوجوانی سے جوانی ناچنے گاتے گزر گئی اب میں اپنوں میں تھا جنہوں نے مجھے ٹھکرایا نہیں قبول کیا مجھے عزت دی لیکن میں مسلسل کر ب میں مبتلا تھا کیونکہ میری روح لڑکیوں والی تھی جسم مردوں والا میں خود کو لڑکی خیال کر تا تھا لیکن جسمانی ڈیل ڈول مردوں والے اب میں دن رات دعائیں شروع کر دیں کہ اے رب کریم مجھے اگر روح لڑکیوں والی دی ہے تو میرا جسم بھی لڑکیوں والا بنا دے مجھے داڑھی مو نچھوں سے شدید نفرت تھی جو مجھے مرد ہونے کا احساس دلاتے اب میں نے اپنے ادھور ے پن کو دور کر نے کے لیے خود کو مکمل کر نے کے لیے مختلف درباوں آستانوں کا رخ کیا پاکستان کا شاید ہی کو ئی دربار ہو جہاں پر میں نہ گیا داتا صاحب جھاڑو پھیرا ‘ بی بی پاک دامن میلوں ننگے پائوں چل کرگیا بلھے شاہ سائیں عنایت کے دربار پر گھنگھرو باندھ کر بے شمار دفعہ ناچا ‘ بری امام کی مچھلیوں کو دانہ ڈالا ‘ بابا مست کے ڈیرے پر کئی دن لنگر دیا ‘ شہباز قلندر کے دربار پر ہر سال جا کر دیوانہ وار مست دھمال ڈالی ‘ عبداللہ شاہ غازی کے کبوتروں کو ‘ بابا خضر کی مچھلیوں کو دانا ڈالا ‘ میاں بخش کے دربار پر پلکوں سے جھاڑو دیا ‘ سلطان الہند خواجہ معین الدین کا متبرک دھاگا بازو پر باندھا ‘ شاہی قلعہ کی سنہری مسجد میںنوافل پڑھے ‘ بابا لال شاہ مری والے قلندر کی درگاہ پر چلے کاٹے ‘ سہیلی سرکار کے دربار پر چرس کا لنگر چڑھایا میں نے اپنے نامکمل وجود کو مکمل کر نے کے لیے ہرچوکھٹ پر ماتھا رگڑا میں خالی جھولی پھیلا کر ہر دربار آستانے پر گیا لیکن میری جھولی خالی تھی خالی ہی رہی۔

پاکستان کشمیر کی تمام روحانی گدیوں سے نامراد ہو کر آخر کار میں نے سوچا اب میں کرہ ارض کی سب سے بڑی گدی مکہ مدینہ جاکر دامن مراد پھیلا تا ہوں شاید وہاں پر میرے بھاگ جاگ جائیں اب میں نے اور میرے چیلوں نے پیسے اکٹھے کرنے شروع کر دئیے دن رات اب میرے لیے پیسے اکٹھے کئے جا رہے تھے آخر کار چندہ اکٹھا ہو گیا میں نے پاسپورٹ شناختی کارڈ بنوا کر عمرے پر جانے کی تیاری شروع کر دی آخر کار میری زندگی کا سب سے اہم یادگار قیمتی دن آیا جب میں عمرے کے لیے مقدس سر زمین کی طرف جا رہا تھا کسی سے سنا تھا کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہو تی ہے میری پہلی نظر جب کعبے پر پڑی تو ایک ہی دعا اے پروردگار مجھے مکمل کر دو میرا ادھورا پن ختم کردو پھر طواف عمرے کی سعادت سے گزرا ہر لمحے ایک ہی دعا آرزو میرے لبوں پر مچلتی رہی غلاف کعبہ میرے آنسوئوں سے تر ہوا رکن یمنی سے لپٹ کر رویا حطیم کے نیچے فریاد کی ‘ مقام ابراہیم پر آنسوئوں کا نذرانہ دیا۔

سعی کے دوران صفا مروا کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ دوڑ کر دعا کی لیکن میرا ادھورا پن ادھورا ہی رہا اپنی دعا کی قبولیت کے لیے میں روزانہ عمرے کرتا ہر نماز کے بعد طواف کر تا کبوتر چوک میں جا کر کبوتروں کو دانا ڈالنا مکے کی گلیوں میں ننگے پائوں پھرتا شاید خدا ئے بزرگ و برتر کو مجھ مسکین پر رحم آجائے گھنٹوں بیٹھ کر خانہ کعبہ کو تکتا کیونکہ خانہ کعبہ کو دیکھنا بھی تو عبادت شمار ہو تی ہے ‘ آب زم زم سے نہاتا دن رات اپنے جسم و جان کو آپ زم زم سے تر کرتا خالی جھولی بھرنے خدا کے پیمانہ رحمت کو چھلکانے کامیرے پاس ایک ہی راستہ تھا خوب جی بھر کر عبادت کروں اِس لیے میںکسی بھی لمحے کو ضائع نہیں کر نا چاہتا تھا بہت کم سوتا ‘ دن رات حرم شریف میںہی عبادت نوافل طواف میں مصروف ہو تا لیکن میری دن رات کی شدید عبادت محنت کا پھل مجھے نہیں مل رہا تھا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرے دکھ کرب ادھورے پن میں اضافہ ہی ہو تا جارہا تھا اپنی دعا کی قبولیت کے لیے میں جو بھی نیک انسان ملتا اُس سے پوچھتا یہاں پر کون سی عبادت زیادہ قبول ہو تی ہے کونسا عمل خدا کے حضور زیادہ افضل ہے مجھے جو بھی کوئی بتاتا میں اُس پر دیوانہ وار عمل کر تا جا رہات ھا کسی نے کہا دوسروں کی خدمت سے رب راضی ہو تا ہے تو میں بوڑھے معذوروں کو کندھوں پر بیٹھا کر طواف کر اتا ‘ صفا مروا کے درمیان چلتا معذوروں کی ویل چئیر کو چلاتا کہ کسی نہ کسی طرح رحیم و کریم خدا کو مجھ پر ترس آجائے میں زندگی میںپہلی بار با جماعت نمازیںپڑھ رہا تھا میںپہلی بار قیام و رکوع اورسجدوں کی لذت سے آشنا ہوا تھا لیکن میری تمام کوششوں کے باوجود میں جس کام کے لیے جس دعا کے لیے خا نہ کعبہ آیا تھا وہ کام میری تمام کوششوں عبادتوں خدمت خلق سے نہیں ہوا تھا میں ابھی بھی ادھورا کا ادھورا ‘نامکمل تھا میں روزانہ اٹھ کر دیکھتا کہ آج میری داڑھی موچھیں نہیں ہو گی میرا وجود لڑکیوں والا ہو گا لیکن یہ نہیں ہو رہا تھا آخر کار مایوسی نے مجھے گھیرنا شروع کر دیا تو کسی نے کہا خدا کا محبوب تو مدینے میں ہے جو وجہ تخلیق کائنات ہے خدا اُس کے وسیلے سے ہر دعا قبول کرتا ہے اب میں نے مدینے جانے کا سوچا ۔ ( جاری ہے )

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org