لائق اور لائک

Police

Police

تحریر : ناصر اقبال خان

معبود کے ڈر سے ”عبد” کی کامیابی کا در کھلتا ہے۔ ہمارے رحمن ربّ کے صفاتی نام قہار اورجباربھی ہیں مگروہ اپنے بندوں کوسترمائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعددآیات میں اپنے بندوں کوخود سے ڈرنے کاحکم دیا ہے اوریہ حکم صرف مومن مردوں یاعورتوں کیلئے مخصوص نہیں بلکہ بروں اوربدوں کیلئے بھی ہے۔انسان کوزندگی میں درست راستہ منتخب کرنے کیلئے جنت اورجہنم کے وجودبارے بتادیا گیا،جنت نیک وکاروںکیلئے انعام جبکہ جہنم بدکاروں کیلئے سزایعنی اللہ کاانتقام ہے۔معبودکاڈربندوں کوسرکش اورمشرک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی برائیوں سے بچاتا ہے،نڈرشیطان نے علم بغاوت بلندکیا تواسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دھتکار دیاگیا۔اس حساب سے ڈر انسان کادشمن نہیں دوست ہے،ڈر کے سبب ہم اپنے روزمرہ کے امور میں حددرجے محتاط ہوجاتے ہیں۔ڈر کافی حدتک ہمیں نقصان سے بچاتا ہے۔دشمن کاڈرہمیں طاقتوربناتا ہے،ہم خود کونہ صرف اس کے مقابلہ کرنے بلکہ اسے شکست فاش دینے کیلئے تیار کرتے ہیں۔حادثہ ہونے کاڈرانسان کو محتاط ڈرائیونگ پرمجبورکرتا ہے،حدسے زیادہ نڈرانسان نقصان اٹھاتے ہیں ۔تقدیر اٹل ہے لیکن اس کے باوجودانسان اپنی زندگی آسان بنانے کیلئے تدبیرکرتے ہیں۔

محسن انسانیت اورسراپارحمت سرورکونین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوخود کوپتھرمارنے اورگالیاں دینے والے کفارکودرگزر فرما تے رہے مگرآپۖ نے اپنی ظاہری حیات میں کبھی کسی مجرم کے ساتھ نرمی نہیں فرمائی تھی ۔چور کے ہاتھ کاٹنا ،گردن کے عوض گردن یعنی قاتل کوقتل کرنا اورآنکھ کے بدلے آنکھ کاانصاف دین فطرت اسلام کابنیادی اصول ہے۔اسلام میں انصاف کوبہت اہمیت حاصل ہے جبکہ شہرالعلم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہونہار طالبعلم فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ آج بھی دنیا میں عادل حکمران کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ،اسلامی تعلیمات کی روسے جوبچے دس برس کی عمر کے باوجودنمازکی پابندی نہ کریں انہیں مناسب حدتک مارنے کاحکم ہے ۔اسلام نے اساتذہ کوروحانی ماں باپ کامقام دیا مگر ہمارے ہاں موم بتی مافیایعنی مادرپدرآزادی کے علمبرداروں نے بہت شورمچایاجس کے نتیجہ میںکمزورحکومت نے ”مارنہیں پیار ” کوتعلیمی ضابطہ اخلاق کاحصہ بنا دیااب بچے پڑھائی کے سوابہت کچھ کرتے ہیں۔میرے نزدیک سوشل میڈیا پرجھوٹ کاراج ہے اورجس ریاست کاراستہ سوشل میڈیا طے کرے گا اس کامستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔کوئی منتخب حکومت سوشل میڈیا کے دبائوپردرست اوردوررس فیصلے نہیں کرسکتی ۔اگرآئین وقانون سے متصادم کسی نکتہ پراس کے حامی تعدادمیں زیادہ ہوں توپھربھی پارلیمنٹ کے سواکوئی ا سے تبدیل نہیں کرسکتا ۔ایک ہزار نابینا بھی ایک دوسرے کوراستہ نہیں سمجھاسکتے ۔اگرقوم کی قسمت کے فیصلے سوشل میڈیانے کرنے ہیں توپھر مریم نواز کے ”پیڈ ”سوشل میڈیاسیل نے نوازشریف کوبیگناہ قراردے دیاتھا ۔سوشل میڈیا پر”لائق ” نہیں” لائک ”والے حکومت کرتے ہیں۔ملک وقوم کوسوشل میڈیا کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔

پچھلے دنوںقومی اورسوشل میڈیاپر پولیس کابے بنیاد میڈیا ٹرائل کیا گیا ،میں تواسے جموں وکشمیر میں جاری بدترین بھارتی بربریت سے مجرمانہ چشم پوشی اورایک سازش سے تعبیر کروں گا۔نریندرمودی کی مجرمانہ سرگرمیوں کی پردہ پوشی کرنے کیلئے نان ایشوکوایشوبناتے ہوئے اسے ضرورت سے بہت زیادہ وقت دیا گیا ۔ پولیس کے مبینہ تشدد سے ایک گرفتارانتہائی شاطرچورصلاح الدین کی موت کے بعد محض میڈیا کے دبائو پرپنجاب حکومت نے بھی پنجاب پولیس کونہ صرف تنہا چھوڑدیابلکہ کٹہرے میں کھڑاکردیا جبکہ تحقیقات کاانتظار تک نہیں کیا گیا۔آئی پنجاب نے بھی فوراً سرنڈر کرتے ہوئے اہلکاروں کوملزمان پرکسی قسم کاتشدداورسمارٹ فون استعمال کرنے سے روک دیا،یعنی تفتیشی کوملزم خواہ وہ قاتل یاڈاکوہواس پرتشدد کی اجازت نہیں جبکہ شرپسند عناصرکودوسروں پرتشدد کیلئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔آئی جی پنجاب یہ بھی فرمادیں اگرکوئی شرپسندکسی پولیس آفیسریااہلکارپرہاتھ اٹھائے،بندوق تان لے یافائرنگ کردے تواس صورت میں ان کیلئے کیا حکم ہے۔ ایک طرف پنجاب پولیس کے کمزوراورمصلحت پسندآئی جی نے اپنے ساتھی آفیسرزاوراہلکاروں کومایوس کیا،وہ اس صورتحال میں ضرورت سے زیادہ دفاعی پوزیشن پر چلے گئے۔ دوسری طرف ڈی جی خان کے ڈی پی او اسدسرفرازخان نے اپنے ایک ویڈیوپیغام میں دبنگ انداز سے مقامی شہریوں کاناجائزدبائوقبول کرنے سے دوٹوک انکار کردیااورقانون کی حکمرانی قائم کرنے کاتجدیدعہدکیا۔آئی جی پنجاب اپنی ” سیٹ” بچانے کیلئے پولیس اہلکاروںکودماغی طورپرمزید”اپ سیٹ” کرنے ان کامورال گرانے سے گریزکریں،اگرآج پنجاب پولیس کاکمانڈر سیاسی دبائوقبول کرے گاتوکل موصوف کے ماتحت کس طرح دبائوکامقابلہ کریں گے۔سابقہ آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کے دورمیں ایساہواہوتایاآج پنجاب پولیس کی کمانڈزیرک اورپروفیشنل محمدطاہر کے محفوظ ہاتھوں میںہوتی توپنجاب پولیس کویوں خفت نہ اٹھاناپڑتی۔پنجاب میں پولیس اصلاحات کیلئے محمدطاہرکودوبارہ کمانڈر اورناصر خان درانی کوان کامعاون بناناہوگا۔

پولیس عادی مجرموں،چوروں ،ڈاکوئوں اورقاتلوں سے سچائی اگلوانے کیلئے ان کو تشددکانشانہ نہیں بناسکتی لیکن تربیت سے محروم ” اینگرپرسن”آزادی صحافت کی آڑ میںقوم کوشب وروز”مینٹل ٹارچر” کرسکتے ہیں۔ایک طرف کہاجاتا ہے پولیس والے تھانوں میں گرفتار ملزمان کووی آئی پی سہولیات دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف بیجا تشدد کا پروپیگنڈا کیاجاتا ہے۔پولیس اہلکاروں کوعادی چوروں ،ڈاکوئوں اورقاتلوں پرتشدد سے روکنے کی بجائے ان سے چوری ،ڈکیتی کامال اورقاتل سے قتل میں استعمال ہونیوالے ہتھیاروں کی برآمدگی کیلئے محتاط اورمخصوص تشدد کی تربیت دی جائے جس سے کوئی زخمی ہواورنہ کسی کی جان جائے تاہم کسی ملزم کوگالی ہرگز نہیں دی جاسکتی۔تشدد کے زخم بھرجاتے ہیں مگرزبان کاگھائوزندگی بھرنہیں بھرتا۔یادرکھیں اگر قانون کانفاذ یقینی بنانیوالے ادارے کاڈر ختم کردیا توپھر معاشرے میں شرپسنداورغنڈہ عناصر کاڈرانتہاسے زیادہ بڑھ جائے گا ۔زیادہ تر ملزم اورمجرم گرفتاری سے پہلے تک فرعون بنے ہوتے ہیںاورکئی توتھانوں میں آنے کے بعد بھی غنڈہ گردی سے باز نہیں آتے ،میں سمجھتاہوں ان کے ساتھ تھانوں میں وہی برتائوہوناچاہئے جووہ باہردوسروں سے کرتے ہیں۔ کوئی جیب تراش یامعمولی روٹی چور مٹھی بھر شہریوں کے قابو آجائے تووہ پولیس کے آنے تک اس پرخوب ہاتھ صاف کرتے ہیں۔اگرپولیس کے ہاتھ باندھ دیے گئے توپھر معاشرے میں چور،ڈاکو،اغواء کار،بھتہ خوراورقاتل دندناتے پھریں گے۔شہروں اورقصبوں میںامن وامان برقرار رکھنا ہے توپھر پولیس کاڈر برقراررکھناہوگا۔پولیس کوتشدد

سے روکنے کے حامی شایدچاہتے ہیں کہ اہلکار گرفتارملزمان کوباری باری ایس ایچ اوکی سیٹ پربٹھاکرانہیںفرداً فرداً یااجتماعی سلیوٹ کریں۔اگرشہری دوران ڈکیتی اپنے دفاع(Self Defence) کاحق استعمال کرتے ہوئے ڈاکوکاقتل کرسکتے توپولیس کاتفتیشی سچائی تک رسائی کیلئے اس گرفتار ڈاکویاقاتل پر تشد دکیوں نہیں کرسکتا جس کووہ اپنی زندگی دائوپرلگاکرقابوکرتا ہے۔جس طرح دوران آپریشن کسی مریض کی متنازعہ موت کامعاملہ مخصوص میڈیکل بورڈ میں بجھوایاجاتا ہے اس طرح دوران تفتیش کسی ملزم کی متنازعہ موت کے معاملے کوبھی ایک مخصوص میڈیکل بورڈ میں دیکھاجائے۔جس طرح لائسنس ہولڈرڈرائیور کی گاڑی سے کسی شہری کی موت پراس کیخلاف302کی بجائے 320دفعہ لگائی جاتی ہے اس طرح پولیس اہلکاروں کے مبینہ تشدد سے کسی ملزم کی موت کی دفعات میڈیکل بورڈ کی سفارشات سے مشروط کردی جائیں۔

موم بتی مافیا کے ہم خیال دانشوروں نے اپنی تحریروں میں چور کے ایک جملے ”تم نے مارناکہاں سے سیکھا”کوبار بار دہرایا۔میں ان دانشوروں سے پوچھتاہوں ،آپ کے ہیرو صلاح الدین نے پاگل بن کردوسروںکوپاگل بناناکہاں سے سیکھاتھا،اس نے کسی اوزار کے بغیر اے ٹی ایم توڑنااورمہارت سے کارڈنکالنا کہاں سے سیکھاتھا ،اس نے شہریوں کی رقوم ہتھیاناکہاں سے سیکھا تھا،اس نے خودکوگونگا ظاہرکرنے کی اداکاری کس سے سیکھی تھی،وہ روزانہ کی بنیادپرفراڈ سے شہریوں کی رقوم ہتھیاکرکہاں صرف کرتا تھااوران رقوم سے مزید کون لوگ مستفیدہوتے تھے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اے ٹی ایم سے چند ہزارچوری کرنیوالے کومبینہ پولیس تشدد سے ماردیاگیا جبکہ قومی چوروں کوزندانوں اورہسپتالوں میں جدیدسہولیات فراہم کی جاتی ہیں توعرض ہے ان چوروں کیلئے شاہراہوں پرکون لوگ آتے ہیں ۔ان کی پیشی پرتواب بیچارہ جاویدہاشمی بھی پیش ہوتا ہے۔جس شریف خاندان کاکوئی فرد جاویدہاشمی کوجیل میں ملنے تک نہیں آتاتھاوہ نام نہاد باغی پہلے نوازشریف اوراب مریم کی پیشیوں پرپیش بلکہ پیش پیش ہوتا ہے ۔جاویدہاشمی جوخود نیب زدہ رہا وہ نیب کے احتساب کوانتقام کانام دیتااوراپوزیشن کے حامی ایک محتسب کامیڈیاٹرائل کرتے ہیں۔

میں سمجھتاہوں ہمارے معاشرے کے چندمخصوص طبقات اپنے ہاتھوں سے وہ تناکاٹ رہے ہیں جس پران کاآشیانہ ہے ۔جی ہاں پولیس کوکمزوراوربدنام کرکے معاشرہ اَن دیکھے خطرات کودعوت دے رہا ہے۔عدلیہ سے بھی پولیس کوشدیدتنقیدکاسامناکرناپڑتا ہے حالانکہ عدلیہ کی رٹ پولیس کے دم سے ہے۔ایک بار عدالت میں ایس ایچ اوعتیق ڈوگرپرمحض ہنسنے کی پاداش میں توہین عدالت لگادی گئی ،ایس ایچ اونے بہت کہا وہ نہیں ہنسا بلکہ اس کاچہرہ ہی ایسا ہے لیکن اس کی ایک نہیں سنی گئی جبکہ مٹھی بھر قانون دان انصاف کے ایوانوں میں باوردی پولیس اہلکاروں پربہیمانہ تشدد سمیت بہت کچھ کرتے ہیں مگران پرتوہین عدالت نہیں لگائی جاتی۔پچھلے دنوں شیخوپورہ کی ایک ماتحت عدالت میںپولیس اہلکاروں کوداخل ہونے سے روک دیا گیا ،یہ وہی پولیس فورس ہے جس کے اہلکار عدالتوں ،مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں سمیت حساس مقامات کی پہریدار ی کرتے ہیں۔کیا ہماراملک یاکوئی صوبہ پولیس اہلکاروں کی دودن تودرکناردوگھنٹوں کی ہڑتال کامتحمل ہوسکتا ہے،انہیں اس قدرزچ نہ کریں کہ ان کاپیمانہ صبر لبریزہوجائے اوروہ کام چھوڑدیں ۔دوسرے ریاستی اداروں کی طرح وہ پولیس آفیسراوراہلکار بھی عزت کے مستحق ہیں جوہماری پرسکون نیند کیلئے ہرطرح کے موسم میں رات بھر جاگتے اورگشت کرتے ہیں۔پولیس کے ڈی آئی جی اورایس ایس پی رینک کے آفیسرز سمیت 1500اہلکاروں نے پتنگ بازی یاون ویلنگ کرتے ہوئے جان نہیں دی بلکہ شہروں اور شہریوں کی حفاظت کے دوران جام شہادت نوش کیا ہے ۔

ہرسال عاشورہ کے ایام میں امن وامان اورمذہبی ہم آہنگی کی فضا برقراررکھنا پولیس کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے،سیاسی قیادت کومراعات کے سواکچھ نہیں سوجھتا۔ماہ محرم الحرام کے سلسلہ میں عوامی نمائندے اورسیاستدان کیوں پولیس کاہاتھ نہیں بٹاتے جس طرح وہ ووٹوں کیلئے گھرگھر میں جاتے ہیں اس طرح عاشورہ کے دنوں میں امن وامان اوربھائی چارے کیلئے اپناکرداراداکیوں نہیں کرتے۔شہرلاہور میںیوم عاشورکے جلوسوں کے پرامن آغاز اورعافیت کے ساتھ اختتام پرلاہورپولیس کی قیادت سی سی پی اولاہوربی اے ناصر،ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمدخان ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ڈاکٹرانعام وحیدخان ،ایس ایس پی آپریشن اسماعیل کھاڑک،ایس ایس پی سکیورٹی محمد نوید اوران کے ٹیم ممبرز دادوتحسین اورمبارکباد کے مستحق ہیں۔لاہورپولیس کی اس کامیابی کے پیچھے یقینا کئی روز کی انتھک محنت،پیشہ ورانہ مہارت،کمٹمنٹ ،منصوبہ بندی اورٹیم ورک شامل ہے ۔ سی سی پی اولاہوربی اے ناصر اورڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمدخان اپنی نیک نیتی اورخدادادصلاحیتوں کے بل اس کڑے امتحان میں کامیاب وکامران رہے ۔ جس وقت قومی اورسوشل میڈیا پر پولیس کامیڈیاٹرائل کیا جارہا تھا اس وقت سی سی پی اولاہوربی اے ناصر ،ڈی آئی جی آپریشن لاہور اشفاق احمدخان اوران کے ٹیم ممبرز سمیت پنجاب بھر میں پولیس آفیسراپنی اپنی جان ہتھیلی پر اٹھائے شہر وںکاامن ،سکون اورشہریوں کے درمیان بھائی چارہ برقراررکھنے کیلئے سرگرم تھے ۔ اس دوران ایک فرض شناس پولیس آفیسر سے ملاقات ہوئی تواس نے صورتحال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ”خان جی دشمن کی گولیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑتیں مگراپنوں کی گالیاں مار ڈالتی ہیں”۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan

Muhammad Nasir Iqbal Khan

تحریر : ناصر اقبال خان