ظالم کی احتجاجی ریلی

Journalism

Journalism

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد و ثناء اور جناب محمد مصطفی کریم آقا کی ذات پاک پر درودوسلام کے ان گنت نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے ایک ریلی کے حوالہ سے زیر نظر مضمون ترتیب دیا ہے میرے احباب اور قارئین نے مجھے دو الگ مسائل پہ لکھنے کا حکم دیا تھا مگر ایک ہفتہ سے میں خود ایک عجیب ذہنی کیفیت کا شکار ہوں اپنی صحافی برادری کی حالت زار پر کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کون سے ایسے ہاتھ ہیں جو اس تماشہ کے پس پردہ کام دکھا کر اپنا اپنا مفاد لے رہے ہیں۔

پاک پتن میں صحافت کی تاریخ صدیوں پرانی نہیں مگر جو حالت اب ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی اس میں قصور وار ہم خود بھی ہیں جنہوں نے صحافت کا بیج اتنا بودیا کہ اب فصل کاٹنے کے بجائے ہم خود کٹنے لگے اللہ کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا اسے اشرف المخلوقات کا تاج پہنایا اور پھر کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم بنا کر کائنات کا نظام چلا دیا کسی حاکم نے رعایا کو اپنا حاکم سمجھا اور خود محکوم یعنی خادم بن کر انکی خدمت کی تو وہ قیامت تک امر ہوگیا ایسے انسانوں کی زندگیاں آج بھی ہمارے لیے مثال ہیں اور کوئی اقتدار کے نشہ میں اس بات کو بھول ہی گیا کہ وہ ایک انسان ہے اس نے اپنے آپکو خدا سمجھنا شروع کردیا اور رعایا کو اپنے زر خرید غلام بنا کر ان سے سجدے کروانے شروع کردیے تو ازل سے ابد الآباد تک حکمرانی کرنے والے رب لم یزل نے انجام وہ کیا کہ آج تک نعش پڑی حکمران عالم کو کہہ رہی ہے کہ خدا کے کنبہ سے پیار نہ کرنے کا انجام دیکھنا ہو تو مجھے دیکھو صحافت ایک مقدس شعبہ ہے اس میں شامل ماہنامہ جرائد کے نمائندگان سے الیکٹرک میڈیا کے نمائندگان سب ایک ہی گنتی میں شمار ہوتے ہیں مگر مزاج ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے کوئی صحافت کی آڑ میں کچھ اور کرتا ہے تو کوئی اپنے حرف جوڑ کر الفاظ بناتا ہے اور پھر ان موتیوں کو کسی ادارے کے سپرد کرکے اپنے بال بچوں کا رزق وصول کرتا ہے اہل فن اہل قلم حضرات اپنے خون سے اسکی آبیاری کرتے ہیں اور مفاد کے وقت سب اکٹھے ہوتے ہیں سیئنرز جونیئیرز کو سکھاتے بھی ہیں اور معاشرہ میں مقام تک پہنچنے میں ممدو معاون بھی بنتے ہیں معزز قارئین میں نے آغاز میں عرض کیا ہے کہ میں خود ذہنی اذیت کا شکار ہوں اس لیے اس مضمون کے سیاق و سباق کو ترتیب شاید اس طرح نہ دے پاسکوں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں اس لیے اسکے ہجے کرکے جوڑ لیجیے گا آپکو سمجھ آجائیگی۔

میرا تعلق جس جگہ سے ہے وہ علاقہ جاگیر دارانہ ہے میرے علاقہ کے سرداران سیاست میں بھی شامل ہیں بلکہ اقتدار میں بھی ہیں میں نے بطور قلمکار انکے ہر اچھے کام کو سراہنے کے بجائے ہمیشہ انکے غلط کاموں پر کھلے عام تنقید کی مگر کسی کے ڈیرہ سے جاکر کبھی بھی کچھ لیا نہیں اور انکے ذاتی مسائل کو کبھی چھیڑا نہیں اسی لیے جب بھی کہیں ملاقات ہو وہ مجھے عزت دیتے ہیں مجھے جب پریس کلب پاکپتن ووٹ کے لیے بلایا گیا تو یہی ایم پی اے میاں نوید علی ہی مہمان خصوصی تھے میری ان سے پہلی ملاقات تھی وہ سب صحافیوں سے بغلگیر ہوکر ایسے ملتے رہے جیسے سب ان کے کلاس فیلو ہوں پریس کلب کے ریکارڈ میں وہ پروگرام اب بھی موجود ہے جب نقیب نے ان کی شان میں قصیدے پڑھے۔

کہ میاں صاحب صحافیوں کے خدمتگار ہیں ہمارے بیٹوں کی طرح ہیں ملنسار ہیں وغیرہ وغیرہ اب اسی میاں نوید علی نے شراب کے نشہ میں دھت ہوکر ایک صحافی کے گھر دھاوا بول دیا اسے زدوکوب کیا ہوائی فائرنگ کی خوف و ہراس پھیلایا اور فرار ہوگیا ساتھی پکڑے گئے اور میاں نوید پہ مقدمہ درج کروانے کے لیے صحافی برادری نے یک جہتی دکھا کر احتجاج شروع کیا جو ایوانوں تک پہنچا اور قانون کے وزیر کی مداخلت اور یقین دہانی پر احتجاج موخر کردیا گیا ہے معزز قارئین وطن عزیز میں مقتدر طبقہ اقرباء پروری نہ کرے اور قانون بنانے والے اسکا نفاذ بھی برابری کی سطح پر کریں تو ملک کی یہ حالت نہ ہو خیر موضوع تھا ظالم کی ریلی صحافیوں کی ریلی کے جواب میں میاں نوید علی ایم پی اے نے بھی پاکپتن میں ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں اسکے حواریوں کے ساتھ ساتھ اسکے طفیلی صحافی بھی شریک ہوئے ریلی کے شرکاء نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے یا کتبے تھامے ہوئے تھے۔

ان پہ لکھا تھا کہ پاک پتن سے زرد صحافت کا خاتمہ کرنا ہے نام نہاد صحافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں میں بہت مشکور ہوں اس نعرہ کی ترغیب و ترتیب دینے والے شخص کا انصاف تو ہمیں مقدر سے ملے گا مگر ہم نے میاں نوید علی کے اس نعرہ کو عملی جامہ پہنا دیا ہے الحمد للہ ہم نے پا ک پتن سے لوٹا صحافت زرد صحافت اور لفافہ صحافت کے خاتمہ کا نہ صرف تہیا کرلیا ہے بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے درد حد سے بڑھا تو دوا بن گیا کے مترادف میاں صاحب کا ریلی نکالنا ہمیں مضبوط کرگیا اور ریلی ہمیشہ مظلوم نکالتے دیکھے ہیں اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ میاں صاحب کو ظالم سے مظلوم بنانے میں کونسی صحافت کے گرو مہاراج آگے تھے لوٹا صحافت لفافہ صحافت یا پھر ایک نئی نسل ہے آجکل کی ہائی بریڈ بیج سے تیار شدہ صحافی جنہیں پالتو بھی کہا جاتا ہے اہل قلم اہل فن میرے سر کا تاج بطور صحافی پورے ملک میں کسی بھی صحافی پر ظلم ہو تو برداشت نہیں
یوں جان دیں گے ہم کہ قاتل تمام عمر
دل کی عدالتوں میں سزا ڈھونڈتا پھرے گا والسلام اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی