اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کا قانون

Marriage

Marriage

تحریر : عائشہ یاسین

پچھلے دنوں ایک الگ مسئلے کو سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ یہ مسئلہ نوجوانوں کی شادی کے متعلق تھا۔ نوجوانوں کی اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کو ہر صورت ممکن بنانے پر زور دیا گیا اور شادی نہ ہونے کی صورت میں والدین کو اس کا جواب طلب کرنے کی تجویز دی گئی اور باقاعدہ قانون نافذ کرنے اور اس پر عمل کروانے کے قانون کو رائج کرنے کی تلقین کی گئی۔ اس بحث میں صرف نوجوانوں کی بے راہ روی اور غلط سمت میں جانے کے خدشات کو واضح کیا گیا۔

ایک عام شہری ہونے کے ناطے یہ بات عقل تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ اٹھارہ سال میں شادی کسی صورت ممکن نہیں۔ اس کی ایک نہیں بے شمار وجوہات ہیں۔ ایک عام سروے میں جب یہ بات نوجوانوں سے پوچھی گئی تو ان کے پاس ہنسنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہ تھا۔ اسی طرح جب یہ مسئلہ والدین کے آگے رکھا گیا تو ان کی شکل پر فکر و پریشانی کے ساتھ صرف یہ الفاظ ادا ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟

ہم جدید دور کے باسی ہیں اور ہر دور کا ایک تقاضا ہوتا ہے۔ جلد شادی کرنا ہرگز کوئی مسئلہ نہیں مگر اس شادی کو نبھانا اور آنے والی نسل کی پرورش اور کفالت اہم مسئلہ ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر اس قدر نا پختہ اور غیر سنجیدہ دور ہوتا ہے جس میں لڑکا لڑکی زندگی کو ایک خواب و خیال گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی موج مستی اور شور ہنگاموں جیسی ہوتی ہے۔ ان میں احساس زمہ داری اور قوت فیصلہ نہیں ہوتا۔ وہ انتہائی جذباتی اور نڈر ہوتے ہیں۔ فیصلہ کرنا اور اس پر قائم رہنا ان کے لیے دشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں ان پر شادی جیسی ذمہ داری ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اس سے بھی زیادہ ضروری ان کی تعلیم ہے۔ بہتر تعلیم اور بہتر ذریعہ معاش کا ہونا انتہائی اہم ہے۔

عموما تمام دنیا میں پیشہ وارانہ تعلیم کے مکمل ہونے کی عمر 23 سال ہے۔ پھر اس کے بعد نوکری اور دیگر انٹرنشپ وغیرہ میں ایک سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔اگر ہم اصول و ضوابط کے حساب سے اندازہ لگائیں تو بھی 24 سال کی عمر سے پہلیشادی ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہاں جہاں تک بات لڑکیوں کی ہے تو بھی اگر ہم لڑکی کی پیشہ وارانہ تعلیم نظرانداز کرکے ان کی تعلیم کی معیشت انتہائی کمزور ہے اور جہاں پہلے ہی غربت اور جہالت کا راج ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ تجویز نامناسب ہے۔

ہمارے معاشرے میں پہلے ہی نوجوانوں کے ساتھ ناروا سلوک برتا جارہاہے۔ لڑکیوں کی تعلیم ویسے ہی ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ نہ ہی لڑکیوں کو بہتر تعلیمکو مختص کریں تو انٹر بنتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں جہاں ہمارے ملک کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر ان کے جائز حقوق دیے جاتے ہیں۔نو عمری کی شادی کسی طور خیر کا باعث نہیں بن سکتی۔ چھوٹی عمر کی شادیوں سے صحت کے معاملات اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ تعلیم کی شرح نمو میں کمی آسکتی ہیں۔ آبادی جو پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ پیشہ وارانہ افراد کی کمی ہوسکتی ہے۔ نہ سمجھی اور لا ابالی عمر کی شادی گھر کے نہ بسنے کا سبب بن سکتی ہے۔

Wedding

Wedding

شادی کوئی کھیل نہیں بلکہ یہ ایک معاہدہ ہے جو دو افراد کے بیچ قائم ہوتا ہے تاکہ نسل پروان چڑھے اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے۔ایسا ہرگز نہیں کہ میں کم عمر کی شادی کے خلاف ہوں۔ بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر کو ہی قانون بنانا دانشورانہ روش نہیں۔ ہاں 24 سے 25 سال کی عمر کی بات کی جائے تو بات کچھ سمجھ آتی ہے کہ جب بچے تعلیم کی فارغ التحصیل ہوجائیں اور ذمہ داریوں کا تعین کرسکیں تو ان کی شادی کر دینی چاہیے۔ بات صرف حقائق و معاشرتی شعور کی بنیاد پر کی جائے تو نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر ایک ایسی تجویز جس کا معاشرے میں اطلاق ہونا ممکن نہ ہوسکے سوائے وقت کے زیاں کے کچھ نہیں۔ نوجوانوں کے لیے اگر قانون دان کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس سے نوجوانوں کی فلاح و ترقی کے راستے کھل سکیں۔ بہتر معاش زندگی اور بہتر تعلیمی نظام کو مستحکم بنایا جاسکے تاکہ آج کا نوجوان بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنے کے بجائے اپنے ملک میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکے اور ملک و قوم کو ترقی مل سکے۔ سو اس طرح کے قانون جس سے نوجوانوں کے مستقبل کو خطرہ ہو سکتا ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

تحریر : عائشہ یاسین