نوجوان وکلاء کے لئے ایک بڑی رکاوٹ

Lawyer

Lawyer

تحریر : روشن خٹک

بِلا شک و شبہ وکالت ایک معزز پیشہ ہے کیونکہ وکیل پورے معاشرے کی حفاظت کرتا ہے اور انصاف دِلانے میں اس کا کردار مرکزی رول ادا کرتا ہے۔وطن عزیز کا پورا عدالتی نظام وکیل کے ارد گرد گھومتا ہے۔ برطانیہ میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے والے باقاعدہ سرکاری طور پر ” معزز ”کا درجہ دیا جاتا ہے۔وطنِ عزیز کی تخلیق بھی ایک وکیل یعنی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا مرہونِ منت ہے۔

اسی وجہ سے ہمارے ہاں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد قانون کی تعلیم حاصل کر کے عدالتوں میں قانون کی پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون کی ڈگری ثانوی تعلیم یعنی ایف اے/ایف ایس سی کرنے کے بعد مزید پانچ سال لاء کالج میں پڑھنے کے بعد ملتی ہے۔ گویا یہ بھی میڈیکل تعلیم کی طرح ایک مشقت طلب دورانیہ ہوتا ہے۔جس کے بعد ایک بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں لئے ایک نوجوان عدالتوں کا رخ کرتا ہے۔ مگر ماضی کے بر عکس اب ایک نئے قانون نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے لئے ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے قانون کے طلباء سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ پہلے جب کوئی قانون کے آخری سال کا امتحان دے دیتا تووہ کورس کمپلیشن سرٹیفیکیٹ لے کر بار کونسل میں جمع کرا دیتا،پھر چھ ماہ کی اپرینٹس شپ ہوتی،اس دوران ریزلٹ بھی آجاتا اور یوں

باقا عدہ پریکٹس شروع کرنے میں آٹھ دس ماہ لگ جاتے تھے۔۔ مگر اب رولز 1976(bc)108میں ترمیم کی گئی ہے جس کے رو سے ایل ایل بی کا ریزلٹ،جس میں کم از کم چھ ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے”آنے کے بعد لاء گیٹ کو درخواست دی جا سکی گی ۔لاء گیٹ ٹسٹ کے بعد اینٹیمیشن فارمز جمع کرنا پڑتے ہیں،پھر بار کونسل کا ٹسٹ ،اس کے بعد انٹرویو لائسنس دیا جائے گا ۔ قصہ مختصر، قانون کے ایک طالبعلم کو پریکٹس شروع کرنے کے لئے اب فائنل امتحان پاس کرنے کے بعد بھی تقریبا دوسال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، جو یقینا نہ صرف بہت زیادہ صبر آزما ہے بلکہ پریکٹیکل لائف شروع کرنے اور روزی روٹی کمانے کے لئے انتہائی مشکل اور بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

اس کے مقابلہ بھی اگر ہم میڈیکل سٹوڈنٹ کے کیریئر کا جائزہ لیں تو ان کو فائنل امتحان کے بعد صرف چھ ماہ کا ہائو س جاب کرنے کی ضرورت ہو تی ہے جس کے بعد وہ میڈیکل پریکٹس شروع کر سکتا ہے ،س کے علاوہ بھی جتنے شعبہ جات ہیں ،ہر کسی کو سولہ سال تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے کی اجازت ہوتی ہے ۔مگر قانون کے طالب علم کو سترہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد پریکٹس شروع کرنے کے لئے متعدد رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں جو یقینا ظلمِ عظیم کے مترادف ہے۔اگر ترمیم شدہ رولز کو دوبارہ اپنی جگہ پر نہ لے جایا گیا تو غریب یا متوسط طبقہ کے بچے اس فیلڈ میں جانے کو خود کشی تصور کریں گے کیونکہ سترہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال مزید ان رکاوٹوں کے عبور کرنے میں لگیں گے تو ان کے والدین شاید اتنا طویل عرصہ ان کا مالی بو جھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔

حکومت کا کام عوام کے لئے آسانیاں فراہم کرنا ہو تا ہے ،ایک وکیل کو وکالت کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے کے لئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کسی ڈاکٹر، انجینئر یا بزنس مین کے لئے پریکٹیکل لائف میں اتنی محنت کی ضرورت نہیں ہو تی جتنی محنت ایک وکیل کے لئے کامیاب ہونے کے لئے کرنی پڑتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کی ایک وکیل کے لئے قانون کی ڈگری یا لائسنس کی حیثیت محض ایک ایسے ٹکٹ جیسے ہو تی ہے ،جس کے ذریعے کوئی شخص کھیلنے کے میدان میں داخل ہو سکتا ہے، پھر کھیلنے یا کامیاب ہو نے کے لئے اسے اپنی جد و جہد اور محنت کی ضرورت ہو تی ہے۔

محنت کے بغیر ایک وکیل کے کامیابی کے امکانات صفر ہوتے ہیں۔ بناء بر ایں ان کے لئے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد رکاوٹیں کھڑی کرنا خلافِِ انصاف اقدام ہے۔ لہذا کالم ہذا کے ذریعے حکومتِ وقت سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان لیگل پیٹیشنز اینڈ بار کونسل رولز رول نمبر108(bc)1976میں کئے گئے ترامیم کو منسوخ کر تے ہو ئے پرانے رولز کو بحال کر دے تاکہ قانون کے طلباء اس وقت جس پریشانی اوربے چینی کا شکار ہیں ،وہ ختم ہو جائے اور متوسط اور غرباء کے بچوں کے لئے بھی قانون کی تعلیم حاصل کرنا مفید ثابت ہو۔ ملک میں قانون کے محافظ مطمئن رہیں گے تو پورا معاشرہ مطمئن اور محفوظ رہے گا۔

Roshan khattak

Roshan khattak

تحریر : روشن خٹک