زرداری اور نواز کی نئی مشکلات

Asif Ali Zardari and Nawaz Sharif

Asif Ali Zardari and Nawaz Sharif

تحریر : روہیل اکبر

گذشتہ دنوں فرانس کے خلاف تحریک لبیک کا احتجاجی دھرنہ تھا تو ہمارے مسلمانوں نے اسکا انتقام بھی اپنے مسلمان بھائیوں سے لیا کسی کے رکشہ کو آگ لگائی گئی تو کسی کا موٹر سائیکل جلا دیا گیا اور تو اور چوک یتیم خانہ سمیت ملک بھر کی شاہراہیں بند کرکے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو یرغمال بنا لیا گیا ڈنڈہ بردار اسلام کے رکھوالوں نے خواتین اور بچوں کو بھی زبردستی روکے رکھا گستاخانہ خاکے جہاں بھی شائع ہوں وہ قابل مذمت ہیں ان کے خلاف پر امن احتجاج کرنا مسلمانوں کا بنیادی حق اور غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے لیکن کیا پاکستان سے فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کرنے والے ہمارے محترم دوست یہ نہیں جانتے کہ فرانس میں 40 لاکھ سے ذائد مسلمان رہائش پذیر ہیں اور وہاں 2300 سے زائد مساجد قائم ہیں اگر فرانس ان مسلمانوں کو خدانخواستہ نکال دیتا ہے تو کونسا ملک ان کو اپنے ہاں بسانے کے لئے تیار ہوگا؟ اگر مسلمانوں کو نہیں بھی نکالا جاتا اور صرف ان مساجد کو ہی بند کردیا جاتا ہے تو یہ لاکھوں مسلمان کیا کریں گے؟ ان کی آئندہ نسلوں میں دین کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد اکثر مسلمان ممالک نے اپنے بارڈر بند کر دیے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں ان مہاجرین کو پورپ کے مخلتف ممالک نے پناہ دی ہوئی ہے جن میں جرمنی اور فرانس سر فہرست ہیں احتجاج ضرور کریں لیکن عالمی سفارتی معاملات کس طرح طے ہوتے ہیں یہ الگ معاملہ ہے دنیا میں اس وقت سب سے بڑی مفادات کی جنگ امریکہ اور چین کے درمیان ہے لیکن اس جنگ کے باجود ان کے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم ہیں کئی دہائیوں تک روس اور امریکہ میں جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک میں ایک دو سرے کے سفیر موجود رہے۔

حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدنی دور میں کفار مکہ کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات مکمل منقطع نہیں فرمائے خلفائے راشدین کے دور میں ایران اور روم کے ساتھ جنگیں بھی ہوتی رہیں مگر سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔ صالح الدین ایوبی جیسے جری مجاہد نے بھی بیت المقدس پر حملہ آور صلیبیوں کے ساتھ مذاکرت کا دروازہ بند نہیں کیا اور بالآخر ان سے امن معائدہ کیا ریاستی سطح پر سفارتی تعلقات منقطع کرنے کو جیسے تحریک والے سمجھ رہے ہیں یہ اس طرح کا معاملہ نہیں فرانس یورپین یونین کا حصہ ہے اس سے تعلقات کے خاتمہ کا مطلب پوری یورپی یونین کے 30 ممالک سے قطع تعلق کرنا ہے اس سارے اقدام سے ان پر کوئی ایسا اثر نہیں پڑے گا کہ وہ آئندہ کوئی قبیح حرکت نہیں کریں گے البتہ اپنے ملک کی ڈوبتی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا اور یہ ملک بھی اللہ نہ کرے شام لیبیا اور عراق کی طرح خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا۔

لہذا ریاست کا کام ریاست کو کرنے دیں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر جس موثر انداز میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اس سے پہلے پاکستان یا دنیا کے کسی حکمران نے اتنے موثر انداز میں آواز بلند نہیں وہ او آئی سی کی سطح پر بھی مسلمان ممالک کو ملکر اس مسئلہ پر متفقہ کردار ادا کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ احتجاج اور تشدد کے نتیجے میں اگر ان کی حکومت کمزور ہوتی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ ملک کے سربراہ بن جائیں گے ہر گز نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کمزور ہوتی یا ٹوٹتی ہے تو پھر ملک پر مسلط ہونے کے لئے مریم نواز اور بلاول بھٹو تیار بیٹھے ہیں آپ کا کا کیا خیال ہے کہ ان کی حکومت بن جاتی ہے تو وہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیں گے یا ناموس رسالت کا معاملہ عالمی سطح پر عمران خان سے زیادہ موثر انداز میں اٹھا سکیں گے؟

ن لیگ سفیر کو نکالنے کی حمایت کرے گی تو لندن میں بیٹھے نواز شریف اور اولاد کا رہنا مشکل مشکل ہوجائیگا اور زرداری خاندان جائیدادیں اور پیسہ بھی ہضم ہوسکتا ہے انکے جب سارے مفادات یورپ میں ہیں تو کیسے سفیر کو نکالنے کی حمایت کر سکیں گے اس وقت دونوں جماعتیں بڑی مشکل میں پھنس گئی ہیں پی ٹی آئی کی حکومت نے تو پہلے دن سے ہی یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد سفیر کو نکالیں گے حکومت نے قرارداد پیش کر کے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے دیکھنا اب یہ ہے کہ اس مسلے پر تنقید کرنے والے کیا کرتے ہیں گذشتہ روز قومی اسمبلی میں شاہد خاقان عباسی تو اتنا فریسٹریشن کا شکارہو گئے تھے کہ جب سپیکر نے کہا جی خاقان صاحب آپ تقریر کریں تو انہوں نے کہا کہ میں جوتا مار دوں گا اس وقت اپوزیشن کے ہوش آرے ہوئے ہیں جب انہوں نے دیکھا حکومت مکمل طور پر اس انتشار سے بچ گئی دھرنے بھی ختم ہو گئے بلکہ الٹا سفیر کو نکالنے والا ایشو بھی ان ہی کے گلے پڑ گیا پیپلز پارٹی بھی ٹائیں ٹائیں فش کرگئی تحریک لبیک بھی کالعدم ہوگئی جنہوں نے گہراو جلاؤ کیا تھا ان پر دہشت گردی کے پرچے بھی نہیں ختم ہوں گے اور اپوزیشن نے جو سمجھا تھا اسکے الٹ ہوگیا عمران خان کے لیے کھودے جانے والے کنویں میں تمام کی تمام اپوزیشن گر گئی تحریک لبیک کے اندر بھی اس وقت بہت سے گروپ بن چکے ہیں۔

عقلمندی اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ حکومت آپ سے دو دفعہ مذاکرات کر چکی ہے اور آئندہ بھی مذاکرات کے ذریعے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اہلسنت کی اس وقت کوئی سیاسی نمائندہ جماعت موجود نہیں آپ سیاست میں یہ خلا پر کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ ریاست سے ٹکراو کا راستہ اختیار کئے بغیر پر امن انداز میں اپنے مشن کو آگے بڑھائیں مذاکرات اور پر امن راستے کو اپنائیں اسی میں اسلام کی عزت ہے اسی میں ملک و قوم کی بہتری اور اسی میں آپ کی بھی عزت ہے رہی بات فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کی وہ معاملہ اب قومی اسمبلی میں ہے لیکن ہمارا بنیادی مقصد اور مطالبہ یہ ہے کہ ان گستاخیوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے وزیراعظم سمیت ہر مسلمان بین الاقوامی سطح پراپنی کوششوں کو جاری رکھیں قدرت نے ہم سب کو یہ ایک موقع دیا ہے اور چونکہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے تو یہ مسئلہ یہی سے حل ہوگا اور اس معاملے پر کامیابی کے بعد پاکستان کو جو کریڈٹ جائے گا ساری امت مسلمہ کبھی نہیں بھول پائے گی آخر میں پنجاب حکومت اور حامد رضا کی کاوشوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جن کی وجہ سے دھرنہ پرامن طور پر اپنے اختتام تک پہنچا۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر