آج کی صحافت

waseem nazar

waseem nazar

صحافت عربی زبان کے لفظ ” صحف ”سے ماخوز ہے جس کے معنی ہیں کتاب، صفحے یا رسالہ وغیرہ کے ہیں۔ انگریزی میں” جر نلزم” ہے جو کہ جرنل سے ماخوز ہے جس کا مطلب ہے روزانہ کا حساب یا روزنامچہ ہے ۔ صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا پھر سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے اور اس سارے کام میں ایمانداری اور اپنے کام کے ساتھ مخلص پن کا عنصر موجود ہونا چاہیے۔ صحافت نام ہے لوگوں کی رہنمائی کرنے کا۔ صحافت نام ہے لوگوں کو تبصروں کے ذریعے عوام الناس کو کھرے کھوٹے کی پہچان کرانے کا۔آغا شورش کاشمیری مرحوم کہا کرتے تھے کہ کوئی صحافی اس وقت تک عزت کما سکتا جب تک وہ اپنے قلم کو آزاد رکھتا ہے اور خود کو ایوانوں سے باہر اور دور رکھتا ہے اور جب اپنے قلم کو بااثر طبقوں اور اہل اقتدار کے پاس رہن رکھ دیتا ہے اور اسی دن صحافتی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔

journalism

journalism

مگر میں بات کروں گا صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اس لفظ پر۔ میں بات کروں گا کہ پاکستان کی صحافت کا رخ کدھر ہے۔پاکستان میں صحافی کیسے بنتا ہے اور کیوں بننا چاہتا ہے۔ کیا صحافی پیسہ کمانے کے لیے اس میدان میں آتا ہے یا پھر شہرت کے لیے آتا ہے یا پھر کوئی مجبور کرتا ہے کہ صحافت کا رخ کیا جائے ۔ جی نہیں آجکل یہ معاملہ الٹ ہے۔ نہ ہی شہرت کی خاطر نہ ہی شوق کی خاطر اور نہ ہی کسی کے مجبور کرنے پر بندہ صحافت کو اپناتا ہے بلکہ آج کل الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو دور ہے اور بندہ سمجھتا ہے کہ دنیا صحافت کے بنا ادھوری ہے اگر میں اس کو اپنا لوں تو عیش بھی ہے اور شہرت بھی ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا آج کے دور میں کرپٹ انسان صحافت کے میدان میں اترتا ہے تا کہ وہ اپنی کرپشن کو بچا سکے اور لوگوں کو بلیک میل کر سکے۔ ایسے صحافی تو بد قسمتی سے صحافت کے مطلب سے روشنا س ہی نہیں۔

اس میں زیادہ قصور ان کا بھی نہیں ہے زیادہ قصور میڈیا کا بھی ہے جو ان کو اپنے ادارے سے منسلک کرتے ہیں نا ہی ان کی تعلیمی قابلیت دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ دیکھا جاتا ہے اگر دیکھا جاتا ہے تو پیسہ کے کتنا پیسہ دو گے، یہ رقم دس ہزار سے لیکر لاکھوں میں بھی ہو سکتی ہے اگر کوئی رقم ادا کر دے تو ادارہ اس کو صحافت کا ایک کارڈ دے دیتا ہے اور اب اس کو لائسنس مل گیا ہے کہ جو چاہے یہ کر سکے جس کو چاہے بلیک میل کر لے پولیس سے پھڈا ڈال لے یا کسی سرکاری آفسر سے اگر کوئی اس کو رشوت دے دے تو یہ ہی اس کی روزی ہے یہ ایک سادہ سا طریقہ ہے صحافی بننے کا۔میں ایک اور بات بیان کرتا چلوں کہ پاکستان میں کوئی بھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا اپنے کسی بھی نمائندے کو ایک روپے تک نہیں دیتا بلکہ اس سے پیسے لیتا ہے۔

اب آپ خود سوچیں کہ یہ کیسا مقدس پیشہ ہے جس میں صحافی بننے کے لئے پہلے تو لاکھوں روپے دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد اس کے پیشہ ور خدمات پر اس کو کچھ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ہمیں اشتہارات کی مد میں لاکھوں روپے دو اگر نہیں دو گے تو آپ کو ادارے سے فارغ کر دیا جائے گا ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہر بندہ صحافت میں آنا چاہتا ہے وہ کسی نا کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے چھوٹے ادارے ایک ہی علاقے میں ایک سے زیادہ نمائندے رکھ لیتے ہیں پیسوں کے لالچ میں اور بڑے ادارے ڈیلنگ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں بندے نے ہمیں اتنے پیسے دیے ہیں اگر تم اتنے دو گئے تو ہم اس کو فارغ کر دیں گے اگر وہ پیسے ادا کر دے تو پہلا بندہ فارغ اور اس کی رقم بھی گئی چاہے اس نے کتنے ہی لاکھ روپے دیے ہوں ۔

اب آپ خود سوچیں کہ یہ کیسا مقدس پیشہ ہے ؟ اور یہ جنونی صحافی جو ان پڑھ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی کاروبار ہوتا ہے اگر ان کو روز گار ہوتا ہے تو وہ صحافت کا مقدس پیشہ اس پیشے میں روز ی تو دور دور تک نظر نہیں آتی۔اگر نظر آتی ہے بدمعاشی، جھوٹ فریب، دھوکہ بازی، لوٹ مار، بلیک میلنگ اور رشوت۔ اگر کوئی رشوت دے دے تو ٹھیک ہے نہیں تو میڈیا میں آواز بلند اور میڈیا ٹرائل شروع۔ یہ صحافی اپنی قلم کی طاقت سے دشمن پر وار کرتے ہیں اور یہ مسلسل کرتے جاتے ہیں اس جنگ میں ان کی روزی ہے اور ادارے کی بھی روزی ہے۔ کئی دشمن تو اتنے ڈر جاتے ہیں کہ کسی طرح ہم میڈیا سے بچ جائیں تو وہ ادارے اور صحافی کو لاکھوں روپے چپ چاپ دے دیتے ہیں تو پھر دشمنی دوستی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر ان کو اقتدار کے ایوانوں، سیاسی پارٹیوں اور سرکاری تقریبات میں ان کو خاص جگہ دی جاتی ہے پھر ان کے تبصروں اور تحریروں کا رخ کسی مخالف سیاسی پارٹی کی طرف ہو گا۔

journalism

journalism

ان صحافیوں کے ضمیر خریدے جا چکے ہیں ان نام نہاد صحافیوں کی اکثریت کسی نہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہی آج ظہرانوں اور عشائیوں میں صرف ان افراد کو ہی بلایا جاتا ہے جن کا کام سننا، سننا اور بس سنے ہوئے کو آگے تک پہنچانا۔ ہر سیاسی،سماجی اور مذہبی پارٹی نے اپنے اپنے صحافی میدان میں چھوڑے ہوئے ہیں جوان کا ہر محاذ پر دفا ع کرتے ہیں۔پہلے صحافی کا نام سن کر اقتدار کے ایوانوں کے اعضا وجواح کانپ اٹھتے تھے قلم کی عزت کو ماں بہن کی عصمت سے زیادہ مقدس جاننے اور کہنے والے صحافی مل جایا کرتے تھے مگر آج ان غیور افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے اور کچھ چل بسے ہیں، کچھ گوشہ تنہائی میں زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زبان زیادہ کھولی اور اپنی قلم کو تیز چلایا ان کو مار دیا گیا۔ صحافت ایک مقدس پیشہ نہیں بلکہ ایک عجیب و غریب کھیل ہے اس کھیل میں وہ ہی کامیاب ہے جو زیادہ کرپٹ ہے جس کے لمبے ہاتھ ہیں۔اس کھیل میںسب سے اہم بات یہ ہے جس کو چاہیں یہ ہیرو بنا دیں جس کو چاہیں یہ زیرو بنا دیں، ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے صحافیوں کو بھی جانتا ہوں جن کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا کیا ایسے لوگ صحافت کے نام کو بدنام نہیں کر رہے۔میری ان صحافی برادری سے گزارش ہے کہ بدلیں اپنے آپ کو اور اپنی سوچ کو اگر آپ اپنی سوچ کو بدلو گے نہیں تو کیسے بدلے گا پاکستان۔ اپنی قلم کو چلاو ایماندری سے کیوںکہ ہر قوم اپنے تمدن کو صحافت ہی کے ذریعے اجاگر کرتی ہے ۔تہذیب و تمدن کی بقا اور ترقی کا بڑی حد تک صحافت پر انحصار ہوتا ہے۔ ہر ملک کی صحافت وہاں کے باشندوں کے جذبات و احساس کا آئینہ ہوتی ہے اگر قوم ترقی یافتہ اور روشن خیال ہے تو صحافت بھی ترقی یافتہ اور روشن خیال ہوگی اور اگر قوم تباہ حال اور محکوم ہے تو صحافت بھی اسی طرح ہوگی لیکن اس کے باوجود صحافت غلامی اور محکومیت کی زنجیریں کاٹ سکتی ہے۔ جس قوم کا نصب العین آزادی ہو تو اس قوم کے عروج کا ستارہ بلند ہو کر رہتا ہے۔

تحریر : وسیم نذر