خواب اور حقیقت
گھر عطا کر مکاں سے کیا حاصل
یہ زمینی بھی زمانی بھی
تو جو چاہے بھی تو صیّاد نہیں ہونے کے
اِن عقیدوں کے ، نصب کے، نام کے
ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں
بزم میں تیرے نہ ہونے کا سوال آیا بہت
نہاں فنا میں بقا ہے، ذرا سنبھل کے چلو
ہم آفتاب سے، ڈھلتے ہیں کچھ خبر ہے تمہیں
نزرِ میر
امّی