عکس اور میں
خدا وندانِ جمہور سے
ہمارا دَور
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا
آگ کے درمیان سے نکلا
اُتر گیا تنِِ نازک سے پتیوں کا لباس
اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
اس بُتکدے میں تُوجوحسیں تر لگا مجھے
خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
جہاں تلک یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
خزاں کےچاند نے پوچھا یہ جھک کےکھڑکی میں
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے