اعجاز دکھایا ہے کسی دست دعا نے

Dua

Dua

اعجاز دکھایا ہے کسی دست دعا نے
رخ موڑ لیا آج ادھر رخش صبا نے

جس آگ کے لگنے میں فقط پل ہی لگا تھا
اس آگ کے بجھنے میں لگے کتنے زمانے

یہ سوچ کے میں آج تلک رہ میں پڑا ہوں
ٹوٹا ہوا پندارا تو آئے گا اٹھانے

جو سنگ زنی کرتے رہے مجھ پر ہمیشہ
آئے ہیں مری قبر پہ وہ پھول چڑھانے

جمہور کے پردے میں یہ کیا کھیل رچا ہے
ایوان میں پہنچے ہیں وہی چہرے پرانے

لٹ جاتے ہیں شاہوں کے مفادات اکثر
منسوب جو ہوتے ہیں غریبو ں سے خزانے

انوار وہ احساس سے عاری ہی رہیں گے
محروم جنہیں درد سے رکھا ہے خدا نے

شاعر: انوارالمصطفی ھمدمی