اُردو کے پھلے شاعر ۔۔۔۔۔ امیر خوسرو

Ahtasham dhama

Ahtasham dhama

شاعر اسم فاعل ہے جس کے معنی ہیں جانتے والا چونکہ شاعر جن خیالات کونظم کرتا ہے ان سے واقف ہوتا ہے اس واسطے شعرکہنے والے کو شاعر کہتے ہیں۔ شاعرکے لغوی معنی”دانندہ ودریا بندہ”ہیں اصطلاحی مرادایسے صاحبِ فن سے ہے جو کلام موزوں پرقادرہو اصطلاح میں اس شخص کو شاعرکہتے ہیں ۔ جو برائی، بھلائی، بحرووزن وتقطیع وقافیہ وغیرہ لوازم شعرکو جانتا ہو۔

1253 تیرھویں صدی عیسوی میں میں پٹیالی(آگرہ) ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ آپ نے ہندستان میں سکونت اختیارکی اور کچھ عرصے بعد ہی اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اورآپ نے برصغیرمیں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادرو کی سیاسی، سماجی، ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ جہاں تک امیر خسروکی ادبی زندگی کا تعلق ہے اورمیرا آج  کا موضوع بھی ”اردوکے پہلے شاعر۔۔۔امیرخسرو” ہے تو میں ان کی اردو ادبی خدمات ہی بیان کروں گا۔ امیر خسرو نے 21کتابیں لکھیں ہیں اورغزل کے 5 دیوان چھوڑکر ہم سے بہت دور چلے گئے  ہیں۔ امیر خسرو نہ صرف شاعری سے بلکہ موسیقی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے۔

حضرت خواجہ الدین اولیا کے مرید تھے اورانہی کے قدموں میں دفن ہوئے۔
اردو کے پہلے شاعر”امیرخسرو” کا کچھ کلام  سماعت فرمائے گا
میں تو پیا ، سے لڑ آئی رے
گھرناری کنواری کہے سو کرے
سوہنی صورتیا، موہنی مورتیا
میں تو ہر یڑے کے پیچھے سما آئی
گھرناری کنواری کہے سو کرے
میں تو پیا، سے لڑ آئی رے۔

یقیناآ پ ان کا کلام پڑھ کرحیران ہو گئے ہیں یہ کسی اردو…آپ کی بات بجا ہے اصل میں جب ہندوستان میں اردو زبان کا آغاز ہوا تھا تو وہ اس طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مختلف، مشکل تھی یہ ایک الگ موضوع  ہے لیکن اس موضوع کوانشا اللہ اس میگزین کی دوستی سے آ پ کے سامنے ضرور پیش کروں گا۔۔۔۔اسی طرح امیرخسرو کی اک اورغزل ہے جس کا ایک مصرع فارسی، ایک اردو اور بحر فارسی ہے

ان کی کتاب ”خالقِ باری”جوآج کل ہمارے درسی تعلیم میں پڑائی جاتی ہے اورہمارے بچے اسے بڑے شوق سے بڑھتے بھی ہیں امیرخسرو نے شاعری کے ساتھ ساتھ ، پہلیاں اور موسیقی میں اپنا بڑانام کمایا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نوجوان نسل تاریخ کو دیکھنا اپنے دماغ پر بوجھ سمجھتی ہے اس وقت ہماری نوجوان نسل کوادبِ اردو جاننے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے یہ نہ صرف اپنے ادبی بزرگوں کے مشن کوآگے لے کرچل سکتے ہیں۔

بلکہ ایک ایسا ماحول بھی عوام کومیسر کر سکتے ہیں جس میں زبان سے دِل تک ، حال سے مستقبل تک چراغِ امن روشن کر سکتے ہیں ۔آپ مشہورصوفی ومرشد حضرت نظام الدین اولیا کے مرید ومحبوب خاص تھے جن سے ان کواتنی محبت وعقیدت تھی کہ جب پیرکے انتقال کا حال سنا تو اسی غم میں چند روزکے بعد1325 میں سفرآخرت اختیارکیا۔ اردو کب اور کیسے وجود میں آئی ہماری زبان ِ اردو ، مختلف اردوکے دور اس کو مدے نظررکھتے ہوئے آئندہ شمارے میں ”اردوکیا ہے؟”پرمضمون قلمبند کروں گا۔