این جی اوز

NGOs

NGOs

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں سماجی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے’ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مختلف سماجی تنظیمیں کام کر رہی ہیں’پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کی کارکردگی جہاں مثالی ہے وہیں بیشتر این جی اوز’ صرف پیپر ورکنگ پر اکتفاء کر رہی ہیں’ کچھ نام نہاد این جی اوز’ صرف پروپیگنڈہ کی حد تک سماجی کاموں میں مصروف ہیں’ سماجی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنے والی ان این جی اوز” کے اپنے ملازمین کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہوتے ہیں’ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”چراغ تلے اندھیرا’۔ہزاروں’ لاکھوں اور کروڑوں روپے کے فنڈز وصول کرنے والی ان این جی اوز’ کو شاید اپنے ملازمین’ سوشل ورکرز نظر نہیں آتے یا پھر اگر نظر آتے ہیں تو انہیں سراسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے’ مطلب یہ کہ ان کی نظر میں این جی اوز’ میں کام کرنے والے یہ لوگ انسان نہیں ہوتے’ یا اگر وہ انسان ہوتے بھی ہیں تو ان کا گھر بار نہیں ہوتا’اگر اُن کا گھر بار ہو بھی تو شاید اُن کے اہل خانہ کے ساتھ ”پیٹ” نہیں لگا ہوتا’ اُن کو بھوک بھی نہیں لگتی’ اُن کو پیاس بھی نہیں لگتی’ ان کی کوئی ضروریات بھی نہیں ہوتیں’ غرض یہ کہ ان این جی اوز کی نظر میں ان کے ملازمین صرف مفت میں کام کرنے والے انسان نما جانور ہیں۔

 
بلا شبہ بہت سی این جی اوز کی کارکردگی مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی خدمات قابل اعتراف ہیں’ ایسی این جی اوز واقعتاََ فنڈز کی مستحق ہیں’ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ان این جی اوز کی امداد بھی کی جانی چاہئے’یہ این جی اوز ملک خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مالی معاونت بھی کرتی ہیں’ اسی طرح کچھ سماجی تنظیمیں’ ٹرسٹ اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے غریبوں کی دعائیں بھی لے رہے ہیں’ فلاحی کاموں میں حصہ لے کر یہ این جی اوز نہ صرف ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں بلکہ خارجی سطح پر ملکی امیج کو بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں’ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُن تمام این جی اوز کی کارکردگی کی جانچ پڑتال بھی کی جائے جن کی سرگرمیاں کاغذی کاموں تک محدود ہیں’ اسی طرح جو این جی اوزاپنے ملازمین اور سوشل ورکرز کا مالی استحصال کرنے میں مصروف ہیں ان کے بارے میں قوانین وضح کئے جائیں’ 8 اکتوبر 2005 ء کے زلزلے اور دیگر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کا کسی حد تک تو ازالہ کیا گیا لیکن ملکی و غیر ملکی امداد کے تناسب سے کئے جانے والے کام اطمینان بخش نہیں۔

 

پاکستان میں کام کرنے والی بیشتر  این جی اوز ‘  زیادہ تر تصویروں میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں’ موجودہ ملکی حالات میں جہاں پاکستانی قوم اور پاکستان کو فلاحی کام کرنے والی حقیقی تنظیموں کی اشد ضرورت ہے وہیں فلاحی کام بھی ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے’ زیادہ تر لوگ سماجی و فلاحی کاموں کو موثر کاروبار سمجھ کر اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں’ فلاحی کام کرنے والی ان این جی اوز میں کچھ اپنے کاموں کی وجہ سے میڈیا اور لوگوں کی نظر میں ہوتی ہیں اور کچھ این جی اوز پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دھڑا دھڑ تصویریں چھپوا کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان این جی اوز کو ملنے والی ہزاروں’ لاکھوں اور کروڑوں روپے کی امداد کون سے فلاحی کاموں پر خرچ ہوتی ہے؟ کیا ان این جی اوز سے کوئی یہ پوچھنے والا ہے کہ یہ خدمت کے نام پر کیا خدمت کر رہی ہیں؟ کیا کوئی ان این جی اوز میں کام کرنے والے افراد سے یہ پوچھتا ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف تونہیں؟ آپ کے کوئی مسائل تو نہیں؟ آپ کے حقوق پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ان سماجی تنظیموں میں کام کرنے والا تھوڑی ہمت کرکے اپنا حق مانگ بھی لیتا ہے تو اُسے فارغ کر دیا جاتا ہے’ لوگوں کی مجبوریوں سے کون کون کیا کیا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

 

معاشرے میں سماجی کاموں کی آڑ میں کون کون سے کام کئے جاتے ہیں؟ صبح سے لیکر رات گئے تک کام کرنے والے ان سوشل ورکرز کو اس کے عوض کیا دیا جاتا ہے؟فلاحی کاموں پرخرچ ہونے والی رقم کا باقاعدہ حساب کتاب بھی رکھا جاتا ہے یا یہ حساب کتاب صرف کاغذی ہوتا ہے؟ سماج’ قانون’ انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی یہ تنظیمیں خود قانون پر کتنا عمل درآمد کرتی ہیں؟ کیا یہ سماجی تنظیمیں اپنی حیثیت میں انسانی حقوق پورے کر رہی ہیں؟ اگر کر رہی ہیں تو خود ان میں کام کرنے والے افراد مالی استحصال کا شکار کیوں ہیں؟ کیا 24 گھنٹوں میں 14 سے 18 گھنٹے کام کرنے والے یہ افراد انسان نہیں؟ کیا ان انسانوں کے کوئی حقوق نہیں۔ تحریر: فیصل علوی