ایک نقطے نے مجرم بنا دیا

imtiaz ali

imtiaz ali

ایک بار سرکار  دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تلوار درخت کی شاخ سے لٹکا کر اس کے سائے میں سوگئے۔ایک کافر آیا اور تلوار نکال کر بولابتائو آج تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااللہ یہ سن کر تلوار کافر کے ہاتھ سے گرپڑی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار اُٹھا کرفرمایا:اب بولوتمھیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا:وہ حیران اور خوفزدہ ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجائو میں کسی سے بدلہ نہیں لیا کرتا۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ْ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایسی مثالی زندگی بسر کی جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔

اللہ اور اس کے رسول کا ذکرکرنے سے دلوں کوسکون ملتا ہے ،اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی تحریر شروع کرتے ہی اللہ اور اس کے رسولۖ کا ذکر کروں ۔حقیقت ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔میں انسان ہوںبلکہ میںسمجھتا ہوں کہ میں نے انسان ہونے کا دعویٰ کررکھا ہے ۔اس لیے میری رائے میں بہت خامیاں ہوسکتی ہیں ۔بہت سی غلطیاں ہوسکتی ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجھے کسی کی رائے سے اختلاف ہوسکتا ہے تو کسی دوسرے کو بھی میری رائے سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے میں آج ایک سینئر کالم نویس کی رائے سے شدید اختلاف کرنے جارہاہوں ۔لیکن میری ذاتی رائے غلط ہوسکتی ہے ۔قارئین محترم ایک نقطہ بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے ۔نقطے کی غلطی کرنے والے کی حیثیت بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔مثال کے طور پر اگر کوئی فقیر کھانے کو مانگے تو ہم کہتے ہیں کہ فقیرصدا لگا رہا ،یا کہا جاتا ہے کہ مانگنے والاکھانا مانگ رہا ہے اور اگر یہی بات بادشاہ کہے تو وہ حکم بن جاتا ہے۔ایک خاص مثال بھی رکھتا ہوں آپ کے سامنے غور کیجئے گا ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کلام کرئے تو وہ ْقرآن کریم بنتا ہے۔اللہ کے رسول کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ حدیث بنتے ہیں ۔بات مختصر کرتا ہوں کالم نویس معاشرے میں بڑا مقام رکھتے ہیں خاص کر بڑے اخبارات میں لکھنے والے کالم نویس ۔نوائے وقت کا شمار پاکستان کے چند بڑے اخباروں میں ہوتا ہے ۔اس لیے نوائے وقت میں لکھنے والے کالم نویس پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔

اگر اخبار بڑا ہے تو اس کی غلطی کیسے چھوٹی ہوسکتی ہے اور وہ ادارتی صفحے پر جی ہاں قارئین 06-09-2012کے نوائے وقت میںبیرسٹرظہور بٹ کاکالم شائع ہوا (بلوچستان بچالیں پاکستان بھی بچ جائے گا) جس میں انہوں نے امریکہ کے ناپاک عزائم کو کچلنے کے لیے کچھ ترجیحات پیش کیں ۔(1) ظہور بٹ صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں پاکستان کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ بلوچستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد حامد کرزئی (جو وہاں کے کرپٹ ترین حکمران سمجھے جاتے ہیں اور اپنے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہیں )کی مخالف قوتوں کی سرپرستی کی جائے تاکہ وہ اقتدار میں آسکیں جس کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی کافی حد تک محفوظ ہوسکتی ہیں۔جناب ظہور بٹ صاحب کاخیال اپنی جگہ لیکن یہاں افغانستان کی جگہ بلوچستان لکھے جانے سے بڑی ہی عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔یہاں میں آپ کی نظر حضرت علامہ اقبالکا ایک کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا
ذرہ غورکریں پاکستان کے اندر افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت قائم کردی ایک لفظ نے۔اور پھر بٹ صاحب کا خیال ہے کہ افغانستان کے اندورنی معاملات میں پاکستان کو مداخلت کرنی چاہئے اورحکومت مخالف تنظیموں کی مدد کرکے ان کو اقتدار میں لانا چاہئے لیکن خاکسار کو بٹ صاحب کے خیال سے بہت زیادہ اختلاف ہے۔کیونکہ پاکستان کی سرحدوں کومحفوط کرنا پاکستانی حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے ناکہ کسی اورکی ،اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کرزئی مخالف گروپ پاکستان کے حامی رہیں گے ؟بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اس کام لئے پاکستان کو اربوں ،کھربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے ۔

کیا پاکستان کی اقتصادی حالت ایسی ہے کہ وہ افغانستان میں حکومت بنانے میں کرزئی مخالف گروپ کی مدد کرسکے ؟؟میرے خیال میں ہمیں سب سے پہلے پاکستان کودیکھنا چاہئے افغان صدر عوام میں مقبول ہیں کہ نہیں اس بات کا فیصلہ افغانستان کی عوام خود کرلے گی ۔ پاکستانی حکومت پہلے پاکستان کے اندرونی معاملات خود سنبھالے اورڈرئون حملے روکے، بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے بلوچ رہنمائوں کو اعتماد میں لے اور ماضی میں جو بلوچ قوم کی حق تلفی کی گئی اسے روکنے کے لئے بلوچ قوم کی رائے سے پالیساں ترتیب دے ۔بے شک پاکستان ہمارا گھر ہے اور بلوچستان ہمارے گھرکااہم حصہ ہے ۔دنیا کی کوئی مخلوق اپنے گھر کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ کرخوش نہیں ہوتی ہم تو پھر بھی انسان ہیں اشرف المخلوقات ۔جب ہمارا اپنا گھر جل رہا ہے تو پھر ہم دوسروں کے گھر کیوں جھانکتے پھریں ۔یہاں میں اپنے استاد محترم سینئر کالم نویس وشاعر جناب ایم اے تبسم صاحب کے کالم میں لکھے گئے کسی شاعر کا یہ شعریاد آگیا کہ ‘جل جائے گا یہ دیس تو کس کام کا پانی۔مل جل کریہ آگ بجا کیوں نہیں لیتے ‘قارئین محترم خاکسارتو اتنا جانتا ہے کہ پہلے اپنا گھر بچانا چاہئے اور اس کے بعد دوسروں کے گھروں میں لگی آگ بچانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔نہ کہ اس بات میں خوش ہوتے رہنا چاہئے کہ اگر میرا گھر جلے گا تو ہمسائے بھی جلیں گے۔میراایمان ہے دنیا کی ہر برائی حق تلفی سے شروع ہوتی ہے ۔اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق حاصل ہوجاتے تو کبھی بھی مسلمان اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہ کرتے ۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر بلوچستان کے عوام کو ان کا حق دے دیا جائے تو مجھے نہیں لگتا انہیں کوئی ضرورت رہے گی کہ پاکستان سے علیحدگی کی بات کریں۔

Balochistan

Balochistan

بلوچستان کے متعلق راقم کی معلومات بہت کم ہیں ۔لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہیں نہ کہیں بلوچستان کے عوام کی حق تلفی ضرور ہوئی ہے  اور کچھ دشمن کی سازش بھی نظر آتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ نہ بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں دشمن اپنی تخریب کاری کئے ہوئے ہے جسے فوری طور پر پوری طاقت سے کچل دینا چاہئے ۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اس میں کسی بھی طرح کا فوجی یاسیاسی اپریشن صرف اور صرف پاکستانیوں کو ہی کرنا چاہئے۔اور کسی اس بات کی کسی صورت اجازت نہیں دینی چاہئے کہ ملک میں گھس کر تخریب کاری کرسکے اور حکمران یہ سوچتے ہیں کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی توپاکستان کو امریکہ سے کون بچائے گا تو اس کا جواب ہے اللہ بچائے گا۔

راقم کی پاکستانی حکومت اور قوم سے ہاتھ جوڑ کردرخواست ہے کہ پاکستان کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے فوری طورپر بلوچستان کے تمام مسائل کو حل کربلوچ عوام کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ آئندہ ان کی حق تلفی نہیں ہوگی اور وہ بھی اسی طرح کے پاکستانی ہیں جس طرح پنجابی ،پختون،سندھی اور دیگر ہیں۔

تحریر: امتیاز علی شاکر