اے کشتہ ستم تیری غیرت کو کیاہوا

جنوب مشرقی ایشیا کی ابتدائی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جانے والا ملک برما جس کا سرکاری نام ریپبلک آف دی یونین مینمار ہے،اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتاہے جہاں پرسرکاری سرپرستی میں گزشتہ ساٹھ سالوں سے نہتّے انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔اٹھارہویں صدی میں برما برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام میں شامل رہا۔۱۹۴۸ میں برطانیہ سے آزاد ہوا اور آزادی سے لے کر اب تک لسانی اور مذہبی اعتبار سےمسلسل داخلی خانہ جنگی کاشکار رہنے والے ملک برما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا ایک باشندہ یو تھانٹ (U Thant) دس سال تک اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل رہا اور برما ہی کی ایک خاتون Aung San Kyiکو 1991میں نوبل امن انعام کا مستحق بھی قرار دیا گیا۔

Aung San Kyi

Aung San Kyi

گزشتہ 1962سے 2011 تک کے پچاس سالہ عرصے کے دوران برما مسلسل فوجی حکومت کے ماتحت رہا۔اگرچہ ۲۰۱۰ کے عام انتخابات کے بعد برما سے فوجی اقتدار کا سورج غروب ہواچاہتاہے لیکن درحقیقت پسِ پردہ ابھی بھی فوجی حکمتِ عملی ہی چل رہی ہے۔

برما کی حکومت کے ہاتھوں بدھ بھکشو اور مگھوں کے استعمال کی باقاعدہ داستان کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ برما میں مذہبی فسادات کی تاریخ کافی پرانی ہے،تاجِ برطانیہ کے دور میں بھی یہاں پر فسادات عروج پر رہے،برما کے مسلمانوں نے 1945میں اپنے تحفظ کیلئے بی ایم سی(برما مسلم کانگریس)کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی۔اسکے پہلے سربراہ “یو رزاق” تھے وہ برما کی آئینی کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ یورزاق کو بعد ازاں موت کے گھاٹ اتار دیاگیا اور ۱۹۵۵ میں بی ایم سی پر پابندی لگادی گئی۔جب 1962 میں جنرل Ne Win برمی قومیت کا نعرہ لگا کر حکمران بنا تو اس نےبرمی فوج سے مسلمانوں کو نکال دیا اوراسی دور میں مسلمانوں کو” گائے کش “کے علاوہ “کالے”اور “غیر ملکی”کے خطابات سے بھی نوازا گیا۔

بعد ازاں جب افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے عالم ِاسلام کی صورتحال کا جائزہ لئے بغیر دیگر اقلیتوں پر دھونس جماناشروع کردیا۔خصوصا انہوں نے جب بدھ مت کے آثار مٹانے اور گرانے شروع کردئے تو اس کا براہِ راست اثر برما کے مسلمانوں پر پڑا۔

بدھ مت کے پیروکاروں نے طالبان کے تشدد کا تشدد کے ساتھ جواب دینے کا فیصلہ کیا اور برمی مسلمانوں کی تنظیم”البرما مسلم یونین”کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگوادی،اس کے علاوہ مسلمانوں کی جامع مساجد کو شہید کرنے کے مطالبے نے بھی زور پکڑا،قرآن مجید کی بے حرمتی کے متعدد واقعات ہوئے اورمسلمانوں کے کاروباری مراکز تباہ کئے گئے ۔برما میں اگرچہ مذہبی فسادات کا سابقہ قدیم تھا لیکن طالبان کی شدّت پسندی نے غیرمسلم قوتوں کو مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کا جواز فراہم کیا اور اس کے بعدحکومت نے بھی کھل کر مسلم کش عناصر کا ساتھ دینا شروع کردیا۔

Burma

Burma

برما کی حکومت نے جب طالبان کے تیور دیکھے تو انہیں بھی اسلام ایک خطرے کی صورت میں دکھائی دیا چنانچہ جس طرح افغانستان میں طالبان اقلیتوں کے خلاف من پسند کاروائیاں کرتے رہے اسی طرح برمامیں مسلمانوں کے خلاف ،غیر مسلم بھی پرتشدد کاروائیاں انجام دیتے رہے۔

طالبان نواز حلقے یوں تو آپ کو برما کے بارے میں بہت کچھ بتادیں گےلیکن شاید وہ آپ کویہ کبھی بھی نہ بتائیں کہ برما کے بسنے والے مسلمانوں کے گھر بار اجاڑنے میں “طالبان” کی حماقتوں کا کتنا ہاتھ ہے۔طالبان کے مظالم کے منظرِ عام پر آنے کے بعد برما کی حکومت “غیرمسلموں کے ساتھ ملی بھگت کرکےمسلمانوں کو مرواو اور حکومت کرو” کی پالیسی پرآج تک عمل پیراہے۔

چنانچہ ہم آپ کی اطلاع کے لئے عرض کیےدیتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں حکومتی ادارے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے دہشت گرد گروپوں کو تشکیل دیتے ہیں اور شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ویسے ہی افغانستان میں طالبان کی شدت پسند کاروائیوں کے بعد برمی حکومت بھی کررہی ہے۔

ہم یہاں پر یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ برمامیں مسلمانوں پر جو بدھ بھکشو اور مگھوں کی طرف سے مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں یہ سب کچھ نہ ہی تو ان کی مذہبی تعلیمات کاحصہ ہے اور نہ ہی اس قتل و غارت کے پیچھے ان کا مذہبی اور دینی لگاو کا رفرماہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ضیاالحق جیسے حکمرانوں نے اپنے استعماری آقاوں کے حکم کی تعمیل اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مسلمانوں کے درمیان مختلف دہشت گردلشکر اور سپاہیں تشکیل دیں۔اگرچہ ان دہشت گرد لشکروں ،سپاہوں اور تنظیموں کی بظاہر شکل اسلامی ہے لیکن درحقیقت ان کی کاروائیوں اور ان کے کرتوتوں کا پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔

ضیاالحق کے فکری مکتب کے زیرِ سایہ پلنے والے دہشت گردوں نے پیغمر اسلام [ص] کے نظریات و افکار کی بو بھی نہیں سونگھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہر کاروائی کو اسلامی اور اپنے آپ کو مجاہد اسلام اور دینی پاسبان اور طالبان کہتے ہیں۔کاٹھ کی یہ پتلیاں کنویں کے مینڈکوں کی مانند زندگی گزارتی ہیں اور گھاس پھوس کی مانند اس جہانِ رنگ و بو سے گزر جاتی ہیں۔

بدھ بھکشو اور مگھوں میں بھی”طالبان” کی طرح ایسے کوڑھ مغزوں کی کثرت ہے جوبرما کی حکومت کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں اور حکومتی اداروں کی آشیرباد کے باعث بے گناہ مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگ رہے ہیں۔

برما میں حالیہ فسادات کی کڑیاں اپریل ۲۰۱۲ کے ان واقعات سےسے جاکر ملتی ہیں کہ جب بدھ بھکشوں کی دو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور بھکشوں نے اس کا برا منایا۔اس کے بعد انہوں نے 2جون 2012 کو مسلمانوں کی ایک بس پر حملہ کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہ بس برما کے دارالحکومت رنگون سے ارکان کے ضلع ”ناونگ کوک” کی طرف جار ہی تھی۔ اس حملے میں انہوں نے بڑی بے رحمی سے خنجروں ، چھریوں اور تلواروں سے مسافرمسلمانوں کا قتل عام کیا۔

میں یہیں پر اپنے قارئین کو اپریل ۲۰۱۲ کاہی ایک اور سانحہ یاد دلانا چاہتاہوں جوکہ پاکستان میں پیش آیا تھا۔اس واقعے میں ایک نہیں بیس بسیں تھیں ۔ یہ ۲ اپریل ۲۰۱۲ کی شب تھی جب راولپنڈی سے سکردو جانے والی بیس گاڑیوں کے کانوائے کوچلاس کے مقام پرروک کر مسافروں کوایک ایک کر کےنیچے اتاراگیا اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ انہیں کئی درجن مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ناکہ لگاکر روکا اورارد گرد گھات لگائے ،ہزاروں انسان نما درندے خنجر،پتھر اور ڈنڈے لے کر مسافر وں پر حملہ آور ہوئے۔

Muslims are killed in Burma

Muslims are killed in Burma

پتھروں کے برسنے اورگولیوں کے چلنے کی آوازوں کے درمیان ننھے بچوں کی چیخیں اورمستورات کے بین فضاوں میں گونجتے رہے لیکن ہمیشہ کی طرح حملہ آوروں کو کسی پر کوئی رحم نہیں آیا،ظلم ،سفّاکیّت اور درندگی کی انتہا دیکھئے ،کتنے ہی لوگوں کے ہاتھ پاوں باندھ کر انہیں دریا میں بہادیاگیا۔اس کے علاوہ پاکستان میں آئے روز بمب دھماکے ہورہے ہیں۔ہمیں نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ پاکستان میں یہ سارے مظالم بدھ بھکشو یا ہندو نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو مجاہد اسلام اور طالبان کہنے والے کرتے ہیں۔

وحشت و بربریت کے یہ مناظر جہاں بھی نظر آئیں،چاہے برمامیں ہوں یا بحرین میں سعودی عرب میں ہوں یا شام میں،عراق میں ہوں یا افغانستان میں ،ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اجتماعی شعور کو بلند کریں ،ہم اس بات کو سمجھیں کہ ظلم بالآخر ظلم ہے ،جوبھی کرے جہاں بھی کرے۔۔۔ طالبان اور نام نہاد مجاہدین کریں یا بدھ بھکشوہ ظالم بالآخر ظالم ہے ۔

اس وقت ہمیں برمامیں مقتول مسلمانوں کی لاشوں پر اشک بہانے کے ساتھ ساتھ بدھ بھکشو ں اور مگھوں کے مذہبی رہنماوں اور دینی رہبروں کو بھی ہر ممکنہ طریقے سےاپنے جذبات و احساسات سے بھی آگاہ کرناچاہیے۔ہمیں طالبان کے جلائے ہوئے نفرتوں کے الاو میں محبتوں کے چراغ روشن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ٹھوس علمی شواہد کے ذریعے بدھ بھکشو اور مگھوں کے مذہبی رہنماوں تک

دینِ اسلام کاحقیقی پیغام پہنچائیں۔ان تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ظلم سے نفرت اور مظلوم سے محبت یہ دنیا کے تمام امن پسندادیان کا مشترکہ منشور ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بدھ بھکشوں کو یاد دلائیں کہ اپنی تعلیمات کی روشنی میں “آنجہانی گوتم بدھ” بھی ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے سخت نالاں اور افسرددہ ہیں۔اگراس قتل و غارت کے بعد بھی بدھ مت کے پیروکار اپنے بانی مذہب کی آتما کو شانتی پہچانا چاہتے ہیں تو اب ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر” مظلوم کی مدد کریں” اور” ظالم کو ظالم کہیں”۔
آئیے ہم اس نازک وقت میں برما کے مقتل کو ظالموں کے خلاف محاذ میں تبدیل کرنے کے لئے دنیاکے ہر ظالم کو ظالم کہنے کا عزم کریں اور دنیاکے ہر گوشے سے ظالموں کے خلاف آواز بلند کریں۔

اے کشتہ ستم تیری غیرت کو کیاہوا
نذر حافی