بلدیاتی نظام کے خلاف 30 نومبر کی قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کی ہڑتال…؟

Strike Muncipal System

Strike Muncipal System

پچھلے دنوں میں بخار، نزلہ ،زکام اور کھانسی جیسی بیماریوں جو ہماری قومی بیماریوں کا درجہ رکھتی ہیں اِن میں مبتلارہاجن کی وجہ سے میں اپنا کوئی کالم بھی نہ لکھ سکا اوریوں میرا رابطہ اپنے قارئین سے منقطع رہا اگرچہ اِس دوران موضوعات تو بے شمار آئے مگرمیںکیا کرتا کہ اندر ہی سے طبیعت نہیں چاہ رہی تھی کہ میںکچھ لکھ پاتا …مگرآج الحمدللہ..! طبیعت کچھ بہترمحسوس ہوئی ہے تو میں نے اپنا رابطہ اپنے قارئین سے اِس کالم سے ایک مرتبہ پھر جوڑ لیا ہے اَب دیکھتے ہیں کہ آپ میرے اِس کالم سے کتنے مطمئن ہوتے ہیں…؟؟ مگر اِس سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ کسی بھی مسئلے کا حل ہڑتال ، مظاہرے ، ریلیاں اور تشدد سے نہیں نکالاجا سکتا ہے اِس کی ایک مثال ہمارے سامنے سنگاپورکی موجود ہے ۔

جہاں گزشتہ دنوں 26سالوں میں سنگاپور میں (سنگاپوری نہیںبلکہ)یہاں مقیم چینی بس ڈرائیورز کی جانب سے ہونے والی پہلی ہڑتال تھی جو افہام و تفہیم سے ختم ہوگئی اَب یہ فیصلہ میںنے اپنے پڑھنے والوںپر چھوڑاکہ 30نومبر کی سندھ بچاؤ کمیٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال اور ہمارے ملک میں سی این جی سمیت دیگر مسائل اور بحرانوں کے حوالوں سے کی جانے والی ہڑتالیں ، مظاہرے، اور ریلیاں کیا ہمیں زیب دیتی ہیںکہ ہم اِن کومنعقدکرکے اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی املاک اور جانوں کو نقصان پہنچائیں۔

بہرحال ..!!پاکستان پیپلزپارٹی جو ملک کی موجودہ برسرِ اقتدار جماعت بھی ہے30 نومبر کو جب ہماری یہ حکمران جماعت جس کا منشور ماضی میں تو روٹی ، کپڑا اورمکان کا تھا مگر پچھلے پونے پانچ سالوں کے دوران یہ باکثرت دیکھنے میں آیا کہ ہماری یہ پہلی مکمل جمہوری حکومت اپنے اِس منشور سے یکسر بھٹک سی گئی ہے آج اگر اِس کا روٹی ، کپڑااور مکان کاکوئی ایسا نعرہ ہے توبس حکمرانوں کے اپنے لئے ہوکررہ گیاہے ورنہ آج بھی یہ بات سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ ماضی میں اِس حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے ہی یہ منشور اور نعرہ اپنے سے زیادہ اپنے غریب اور مجبور اور مفلوک الحال عوام کے لئے ہوا کرتا تھا مگر آج افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ اپنی تما م تر اچھی روایات سے ہٹ کر جب ہماری یہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اپنا 46 واں یومِ تاسیس اور یومِ تجدید عہد روایتی جوش وخروش سے ملک بھر میں منارہی تھی تو اِسی روزپاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے سربراہ پیر پگارااور سندھ بچاؤکمیٹی میں شامل سیاسی و قوم پرست جماعتوں کی خصوصی اپیل پر سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف ہڑتال کی کال بھی دے دی گئی۔

یہاں میں اپنے قارئین کو یہ بتاتاچلوں کہ یہ وہی ہڑتال ہے کہ جِسے 13 ستمبر 2012کو ہونی تھی مگر11ستمبرکو بلدیہ ٹاؤن میں علی گارمنٹس میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 300کے قریب قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر غمزدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کے طور پریہ ہڑتال مؤخردی گئی تھی مگرجِسے بعد میں30 نومبر2012 بروزجمعہ کو کراچی کے بعض علاقوں اور اندرون وسندھ کے کئی بڑے شہروں اور علاقوں میںپہلے سے کی گئیں منصوبہ بندیوں کے ساتھ پُرتشدد کارروائیاں کرکے عملی جامہ پہنا دیا گیا۔

سندھ بچاؤ کمیٹی اور اِس میں شامل سیاسی و قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تیس نومبر کودی گئی ہڑتال کوہر صورت میں کامیاب منانے کے لئے تشددکے روائتی طریقے اور کارروائیاں 29نومبر کی شام سے رات گئے تک جاری رکھی گئیںیعنی یہ کہ جمعے کی ہڑتال کی کال پر شہر کے مختلف علاقوں میں ہڑتال سے قبل ہی جلاؤ گھیراؤ اور ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیاگیا اِس روز نامعلوم مسلح افراد(ملزمان) نے اپنے انداز سے دہشت گردی کرکے خوف وہراس پھیلانے کی غرض سے شہر کراچی کے معاملات زندگی کو مفلوج کرنے کے لئے چار سے چھ گاڑیوں کو آگ لگاکر اور ہوائی فائرنگ کرکے کاروبار زندگی بندکرانے میں اپنا اپنا کردار اداکیا اوراطلاعات کے مطابق گلستان جوہرمیںروٹ نمبرG-7کی منی بس ،سچل کے علاقے میں ایک شیرازکوچ، گلشن اقبال میںمنی بس،نارتھ ناظم آباد میںایک کار کو ہڑتال کی کال دینے والی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے کارندوں نے آگ لگا دی۔

Sindh Firing

Sindh Firing

جبکہ اِن جماعتوں کے تشدد پسند عناصر کی شہر کے مختلف علاقوں میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی کاروائیاں اِس کے علاوہ ہیں اگرچہ کراچی میں سندھ بچاؤ کمیٹی کی ہڑتال جزوی رہی جبکہ اندرونِ سندھ یہ ہڑتال کسی حد تک کامیاب نظرآئی سندھ کے جن علاقوں میں ہڑتال کامیاب بنانے کے لئے مظاہروں اور ریلیایوں کے ذریعے پرتشدد کارروائیاں دیکھنے میں آئیں اُن میں حیدرآباد، کوہڑی، سکھر، جیکب آباد، سانگھڑ ہیں جہاں شاہ پور چاگر کے علاقے میں فنکشنل لیگ کی ایک ریلی پر مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 12سے زائد افراد کو زخمی کردیا اِس ریلی پرفائرنگ کے نتیجے میں پیرپگارا کے خلیفہ غلام محمد انٹر اور اِن کے بیٹے بھی زخمی ہوئے جنہیں طبعی امداد کے لئے قریبی اسپتال پہنچایا گیا اور حیدرآباد کاحیدر چوک کا علاقہ قابلِ ذکر ہے جہاں فنکشنل لیگ اور سندھ بچاؤ کی نکالی گئی ریلی کے شرکاء نے اپنی پُرتشدد کارروائیاں کرکے ہنگامہ آرائی کی اور یہ دعوی ٰ کیا کہ اِس طرح اِن کی آج بلدیاتی نظام کے خلاف کی گئی ہڑتال اور لاہور ہائی کورٹ کے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف بنایاجانے والا یوم سیاہ کامیاب ہوگیا ہے۔

یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں نکالنے کے لئے سندھ بچاؤ کمیٹی کی طرف سے تیس نومبر کو دی گئی ہڑتال کی کال میں جوسیاسی اورقوم پرست جماعتیں شامل تھیںاِن میںسرِفہرست مسلم لیگ فنگشنل سمیت پاکستان مسلم لیگ (ن)،تحریک انصاف پاکستان، جمعیت علماء اسلام(ف)، جماعت اسلامی ، پاکستان سُنی تحریک، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) جمعیت علماء پاکستان اور دیگرکئی ایسی ہی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں تھیں جنہوں نے بلدیاتی نظام کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق بنانے کے لئے ہڑتال کو پُر تشدد کرکے اِسے بامقصدبناناچاہاتاکہ یہ ساری جماعتیں اِس طرح حکومت کو بلیک میل کرکے بلدیاتی نظام میں رخنہ ڈال سکیں۔

اَب اِس منظراور پس منظر میں میرا(راقم الحرف کا)ایک ناقص خیال یہ ہے کہ آج جن سیاسی ،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے 30نومبرکوبلدیاتی نظام کے خلاف سندھ بچاؤ نظریئے کے تحت کہیں پُرتشددتو کہیںپُرامن ہڑتال کی ہے یہ مسئلہ اتنا بڑااور اتنااہم بھی نہیں تھا جِسے اہمیت دے کراِن سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے ہڑتال کی …مگرکیا ہی اچھاہوتاکہ یوںیہ ساری جماعتیں بلدیاتی نظام کو ایشو بناکرعام انتخابات سے قبل اپنااپناسیاسی قد اُونچاکرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار نہ کرتیں…کیایہ اپنے اِس مسئلے کو مہذب قوموں کی طرح افہام وتفہیم اور ٹیبل ٹاک اور بحث ومباحثوں سے حل نہیں کرسکتیں تھیںکیوں کہ جو ممالک اور قومیں تہذیب یافتہ اور امن پسندہوتی ہیں وہ اپنے نظریئے اورتھیوری کاپرچارکرنے کے لئے تشدداور ہڑتال کا راستہ اختیار نہیں کرتی ہیںاوراگر بالفرض یہ کوئی ایساراستہ کبھی اختیار کربھی لیتی ہیں تو وہ اِس دوران تشددکو نہیں اپناتی ہیںبلکہ امن وسکون سے اپنے مسائل حل کرلیتی ہیں۔

مگر ہمارے یہاں تو ہر ہڑتال ، مظاہرے اور کسی بھی ریلی میں جب تک تشدد کا عنصر شامل نہ کرلیاجائے کوئی اِن کی کامیابی کی ضمانت لینے کو تیار ہی نہیں ہوتاہے ہم ایساکیوں کرتے ہیں …؟کیا میرے اِس آسان سے سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے…؟تو براہ مہربانی مجھے ضرور بتادے۔

تحریر : اعظم عظیم اعظم