بلوچستان جل رہا ہے پاکستان کے دشمن سر گرم ہیں

Balochistan

Balochistan

پاکستان کے دشمن اس سر زمین کو پھلنے پھولنے نہیں دیں گے۔ امریکہ اور ہندوستان پاکستان کے یہ دو بڑے دشمن ہیں ۔ہندو کو تکلیف یہ ہے کہ پاکستان ہی اکھنڈ بھارت کی راہ میں رکاوٹ بنا امریکہ جس کو ہم نے ہمیشہ اپنا دوست کہا یہ ہمیشہ سے ہی ہماری آستین کا سانپ ہے۔جس نے ہر نازک موڑ پر ہمیں ڈسا اور ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی امریکہ ہی رہاہے۔ ابھی کل ہی کوہستان سے اٹھارہ، افراد جن کی شناخت شیعہ ہونے پر را اور سی آئی اے کی مشترکہ کوشش سے اپنے ایجنٹوں کے ہاتھو شہید کر اکے پاکستان میں فرقہ پرستی کا الائو بھڑکا نے کی مذموم سازش کی گئی ہے۔را اور سی آئی اے اسی طرح کی کلنگ بلوچستان میںبھی مسلسل کرا رہی ہیں۔دوسری جانب پرویز مشرف کے بُنے ہوے امریکی جال میں بھی ہمارے بلوچ نوجوان ٹریپ کر لئے گئے ہیں۔ حالانکہ امریکی پٹھو کے ہاتھوں بلوچستان کوسب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا اورکے ایک عظیم رہنما اکبر بکٹی کو شہید کرایا گیا اور قتل و غارت گری کی تو ہزاروں داستانوں کو جنم دیا گیا ہے۔بلوچ نوجوانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستا ن اور امریکہ دونوں ہی اس خطے کے دشمن اول ہیں۔جویہاں کی معدنیات پر للچائی ہوئی نظر یں گڑائے ہوے ہیں اور جو بلوچستان کو ترقی کرتاہوا نہیں دیکھ سکیں گے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں لگنے والے فوجی مارشل لاز نے ہمیشہ بلوچوں کی گردن دبانے کی کوششیں کیں جن میں ہمارے نام نہاد سیاست دان بھی برابر کے شریک رہے۔ایوب خان نے ہی در اصل نواب اکبر بکٹی کو پہلی مرتبہ اُس وقت اشتعال دلایا تھا جب 1962میںفوجی عدالت کے ذریعے اُن پر سزائے موت کا حکم صادر کیا گیا۔دوسرا کھیل منتخب عوامی حکومت نے1973میںفضائیہ کے ذریعے بمباری کر کے کھیلا گیا۔سیکورٹی اسٹابلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ وہ بلوچوں کے ساتھ نوآبادیاتی آقائوں کی طرح ڈیل کرنا چاہتی ہے۔فوجی ٹولے نے ہمیشہ پاکستان کو منی مائز کرنے کا ہی کھیل کھیلاہے۔پہلے مشرقی پاکستان 1971میں گنویا اب بلوچستان کا نمبر ان لوگوں نے لگا یا ہوا ہے۔ اس کے بعد بقیہ کام امریکہ اور ہندوستان مل کرخود انجام دے لیںگے۔

 

ایک جانب ہمیں فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے تو دوسری جانب ہمارے ہی لوگوں کو خرید کر ان کے ذریعے بہیمانہ طریقے پر قتل کرائے جا رہیں۔ تیسری جانب بم دھماکوں اور خود کش حملوںکے ذریعے ہماری یکجہتی کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے۔اس مذموم عمل کے لئے ہمارے اپنے لوگ ہی جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں۔ در اصل بلوچستان،گلگت بلتستان ان دونوں علاقوں میںہمارے انتہائی مخلص اور قریبی دوست چین کے کئی پرجیکٹ ہماری معاشی ترقی کے ضمن میں چل رہے ہیں اور شاہرہ ریشم بھی گلگت بلتستان سے ہی گذرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرامن علاقے میں مزہبی جنونیت پید کرا کے یہاں بھی بفرتوں کا الائو جلایا جا رہا ہے۔لہٰذا امریکہ اور ہندوستان کے لئے یہ بات بالکل قابلِ قبول نہیں ہے کہ پاکستان ترقی کی منازل طے کرے اور چین اس معا ملے میں ہماری معاونت کرے۔

 

صدر زرداری نے حکومت سنبھالنے کے بعد بلوچوں سے جو وعدے کئے تھے وہ تودھرے کے دھرے رہ گئے۔ صدر مملکت نے پہلے اعلان کیا وہ خود بلوچوں کے پاس چل کر جانے کو تیار ہیںمگر پھر انہوں نے ارادہ بدل کر گورنر بلوچستان کی والدہ کی تعزیت کرتے ہوے موقعہ غنیمت جان کر اپنا بوجھ گونر بلوچستان کے ناتواں کندھوں پر ڈالتے ہوے یہ کہا کہ بلوچوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے ہی اے پی سی بلائی ہے۔حکومت ان کے مسائل سے آگاہ ہے۔ ہم بلوچوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔اور بلوچستان کے لوگوں سے انصاف ہو گا صدر صاحب آپ کے اقتدار کو قریباََ1500دن ہونے کو ہیں ۔اس چار سال کے طویل عرصے کے دوران بلوچوں کے قتال کے سوائے آپ کی حکومت نے کیا کیا پانی سر سے پیپلز پارٹی کی حکومت نے گذارا ہے۔اس نا انصافی کا جواب بھی پیپلز پار ٹی ہی کو دینا ہو گا بلوچوں کا احساسِ محرومی آپ کے دور میں بہت بڑھا ہے۔
ایک جانب وزیر داخلہ رحمان ملک صدر اور وزیر اعظم کا پاور استعمال کرتے ہوے بلوچوں کے لئے عام معافی اعلان کرتے ہوے کہتے ہیں کہ برہمداغ بکٹی اور حربیار مری سمیت تمام بلوچ رہنمائوںکے مقدمات ختم کر دیئے ہیں۔ تو دوسری جانب ان کی پارٹی کی دو اہم شخصیات منظور وٹو اور قمر زمان کائرہ نے وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر اس بیان سے لا تعلقی کا چند گھنٹوں کے بعد ہی اعلان کر دیا۔سمجھ نہیں آتا کہ جو باتیں صدر اور وزیر اعظم کو کرنی چاہئیں وہ ان کے وزیر کر گذرتے ہیں مگر نتیجہ پھر بھی نفی صفر ہی ہوتا ہے۔

 

پرویز مشرف کا نو سالہ دور اقتدار تو تھا ہی پورے پاکستان کے لئے بر بریت کا دور جس نے بلوچوں کو مسلسل خون کے آنسو دیئے۔مگر موجودہ حکومت کا چار سالہ دور بھی کوئی قابل فخر نہیں رہا۔جس میں جھوٹے وعدے تو کیئے گئے مگر عملی طور پر کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔بلوچستان کی اس وقت وہ پوزیش ے کہ ذرا سی لغزش ہماری پوری امارت اور عمارت کو پارہ پارہ کر دے گی۔عجب معاملہ ہے کہ بلوچستان میںپاکستان کا پرچم اور اس کانعرہ چند سرکاری جگہوں کے علاوہ کہیںدیکھا اور سُنا نہیں جا سکتا ہے۔جو دراصل گذشتہ 60 سالوں کی محرومی اور ڈنڈا برداری کا زہریلا پھل ہے جس کو چکھنا آج ساری پاکستانی قوم کی مجبو ری ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ معاملات ان کے قابو سے باہر ہیں۔ایف سی میرے قابو سے باہر ہے۔ یہاں عملی طور پر فوجی آپریشن جاری ہے۔ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کا ہر معاملے پر کنٹرول ہے۔ وہ ہی بلوچستان میں حکومتی فیصلے صادر کرتے ہیں۔ان کا اشارہ برائے راست فوج کی طرف ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت کی نا اہلی اوربے بسی بھی مثالی دکھائی دیتی ہے۔صرف ایک سال میں بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔بلوچستان میں روزانہ لاشوں کی بارش ہو رہی ہے۔یہاں نہ کوئی انٹلیک چول محفوظ ہے،نہ کوئی سردار اور نہ ہی کوئی مزدور۔ قتل و غارت گری میں ہمارے ادارے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔جو مسلسل مسخ شدہ لاشیں اور افراد کو غائب کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ہم نے گذشتہ 60سالوں میں بلوچستان کے لئے وہ کچھ نہ کیا جوہمیںکرناچاہئے تھا۔ہم نے اور وہان کے سرداروں نے بلوچ عوام کو ہر میدان میں پیچھے رکھا ۔ نہ تعلیم فراہم کی نہ ان کی معاش کو مضبوط کیا اور نہ ہی انہیں جکڑ بندیوں سے نجات دلائی جس کا خمیازہ آج ساری قوم بھگتنے کو ہے۔بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔سرکاری ملازمتوں میں بلوچستا ن کے لوگوں کی محرومیاں انتہائی بلندیو ں پر ہیں۔مگر ایک مخصوص طبقہ بلوچستان کے پیسے پر انتہائی عیاش کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔وہ ہے برسرِ اقتدار طبقہ جو 65 کے ایوان میں 58 وزیر مشیر ہیں ،یہ ہی نہیں گذشتہ چار سالوں سے ہر ایک کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر 25کروڑ روپے کی خطیر رقم بھی دی جا رہیء ہے ۔مگر ترقیاتی کام کہیں ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔یہاں کے 70فیصد اسکولوں میں تالے پڑے ہیں۔

 

پاکستان میںہر جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ اکبر بکٹی کے قاتل فوجی جنرل پرویز مشرف کو ریڈ وارنٹ کے ذریعے کرفتاری کے انتظامات کرکے اُسے بھی انصاف کے کٹہیرے میں کھڑا کیا جائے اور اٹھائے گئے نو جوانوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کریںاور بلوچستان میں ایجنسیز کا کردار ختم کر کے اسے اصل دشمن کی طرف موڑیں۔ جہاں کہیں بھی فوجی آپریشن بلوچستان میں جاری ہے اس کو فوری طور پر روکا جائے۔ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے لوگوں کو خون بہا دے کر انکے زخمون پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ کہا جا رہا ہے کہ بغاوت پر آمادہ سرداروں کی دھمکیون کے ساتھ بلوچستان سے کچھ ہمدرد اور متوازن آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیںجن سے مذاکرات کر کے معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر بر وقت اقدامات نہ کئے گئے تو خطرہ ہے یہ آوازیں بھی اپنا انداز بدل لینے پر مجبور ہوں گی۔ اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ جس کے بعد لکیر پیٹنا ہمارا مقدر ہو گا۔

 

ہندوستان، امریکہ، اسرائیل، روس اور پورا یورپ ایٹمی قوت پاکستان میں ایک مرتبہ پھر مشرقی پاکستان کا المیہ دہرانے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیںگذشتہ چھ دہائیوں سے ہم نے بلوچستان کے حالات خودخراب کئے ہیںدوسری جانب پاکستان کے ازلی دشمن اپنے اپنے کھیل کے تانے بانے مکمل کئے بیٹھے ہیں۔بلوچستان کے وسائل پر امریکہ اور ہندواستان ہی نہیں بلکہ بہت سی قوتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کی یکجہتی خوشحالی اور سلامتی کا گہرا تعلق بلوچستان سے ہے۔بلوچستان جل رہا ہے اور دشمن سرگرم ہیں ہماری بر بادی کے لئے۔ بلوچستان کے آنسو پونچھنے کی اور انہیں فوری انصاف فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وقت کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیا جائے۔ ہمیں اپنی غلطویوں پر بھی نظر ڈالنے کی بے انتہا ضرورت ہے۔

 

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید