” بے نظیر ہم شرمندہ ہیں ، تیرے قاتل زندہ ہیں”

Aqeel Khan

Aqeel Khan

27 دسمبر2007کا دن پاکستان کی تاریخ میں نام کر گیا کیونکہ اس دن پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم اور ہر دلعزیزلیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا تھا ۔ ان کی شہادت کا دکھ آج تک عوام نہیں بھولی۔ مجھے یا د ہے جس روز یہ واقعہ ہوا میں بی اے کا پیپر دیکر آرہا تھا ۔ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا تھا جب مجھے میرے ایک دوست نے فون کیا کہ لیاقت باغ میں پی پی کے جلسے میں خود کش حملہ ہو گیا ہے۔

جس میں بے نظیر شہید ہوگئیں ہیں۔ مجھے اس کی یہ بات سن کر یقین نہیں آیا مگر جب میں اپنے بس سٹاپ پر اترا تو مجھے دیکھ کر ایسا لگا جیسے دھماکہ پنڈی میں نہیں میرے شہرجمبر میں ہوا ہے۔ہر طرف خاموشی خاموشی اور سوگ کا ماحول تھا۔ ہر کوئی محترمہ ” پنکی ”کی بات کر رہا تھا خواہ وہ کیسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔یہ کوئی شک والی بات نہیں محترمہ بینظیر بھٹو ملک کے چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں ۔ محترمہ بینظیربھٹوکے قتل کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست کا ایک باب جو بھٹو خاندان کے نام سے چل رہا تھا ، ختم ہوگیا۔جو اب کبھی بھی شروع نہیں ہوسکتا۔محترمہ نے اپنی جان اپنے باپ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے اصولوںپر چلتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے دی۔

محترمہ بینظیر بھٹو21 جون 1952 کو پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ اس کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئیں اور اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ پنکی کے نام سے پکاری جانے والی بچی نے 15 سال کی عمر میںاولیول کا امتحان پاس کیا اور پھر اے لیول مکمل کرنے کے بعد کراچی آگئی ۔پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک چلی گئی ۔ 5سال تک ریڈکلف کالج اور ہارورڈیونیورسٹی امریکہ میں زیرتعلیم رہی۔ اسی دوران بی اے کی ڈگری حاصل کی اور وہاں سے مزید تعلیم حاصل کرنے برطانیہ چلی گئی ۔ یہاں آکسفورڈمیں فلسفہ ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے انہیں پڑھا ا وراس کے علاوہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کے مضامین میں بھی خاصی دلچسپی لی۔ 1976میں آکسفورڈ یونین کا صدر بھی بننے کااعزاز حاحل کیا ۔ بے نظیر کی شادی 18دسمبر1987کو زرداری خاندان کے نوجوان آصف علی سے ہوئی ۔ جوآج مملکت پاکستان کے صدر ہیں۔ بے نظیر کی اولاد میں تین بچے بلاول ، بختاور اورآصفہ ہیں۔ اس حقیقت سے نہ صرف اہل پاکستان ہی اچھی طرح سے واقف ہیںبلکہ ساری دنیا بھی یہ خوب جانتی ہے کہ بھٹو خاندان کا چراغ کس طرح گل ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی دی گئی ۔ ان کے بڑے بیٹے شاہ نواز بھٹوکو زہر دے کر ہلاک کر دیاگیا ۔ پھر ان کے بعد محترمہ کے دوسرے بھائی مرتضی بھٹو کو بھی ہلاک کر دیاگیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کا سفر سیاست کا آغاز جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ ضیاء الحق کی شہادت کے بعد ملک میں ہو نے والے 1988کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بارنئے جذبے کے ساتھ شریک ہوئی اور ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہو ئی۔ اس طرح 1988میں محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک کی بلکہ امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں ۔

1993کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر کامیاب ہوئی تو محترمہ بینظیر بھٹو کو ملک کا دوسری بار وزیراعظم منتخب کر لیا گیا مگر اپنے ہی بنائے ہوئے صدر کے ہاتھوں اپنی حکومت کا خاتمہ کرایا۔1998میں نواز شریف کے دوراقتدار میں کو جلاوطنی اختیا ر کرنی پڑی ۔ 12اکتوبر1999 کو جب جنرل پرویز مشرف نوازشریف کی حکومت پر شب خون مارکرملک پر قابض ہو گیا اور نواز شریف کو ان کے اہل خانہ سمیت راتوں رات جہاز میں بٹھا کر جلاوطن کردیا۔ پہلے تو صرف محترمہ ہی ملک سے باہر تھیں اور اب تو نوازشریف بھی ملک سے باہر تھے۔ کچھ عرصہ بعدجب پرویز مشرف پر عالمی دباؤ بڑھا تو اس آمر جنرل نے محترمہ بھٹو سے دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کردی۔جب بے نظیر بھٹو اپنی طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر2007کو کراچی واپس آئیں تو ان کے تاریخی استقبالیہ جلوس میں بم دھماکہ ہوا۔

Benazir Bhutto Shaheed

Benazir Bhutto Shaheed

اس قاتلانہ حملے میں محترمہ بینظیر بھٹو خوش قسمتی سے محفوظ رہیں۔ آپ بلاخوف وخطرملک کے کونے کونے میں اپنے انتخابی جلسے اورجلوسوںکی قیادت کرتی رہیں مگر27دسمبر2007کو جب ایک انتخابی جلسے کے دوران راولپنڈی کے لیاقت باغ میںمحترمہ بینظیر بھٹو پر آخری قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب خطاب کے بعداپنی گاڑی میں سوار ہوکرواپس جارہی تھیں۔ اس دوران لیاقت باغ نے خون سے اپنی زمین کو رنگین کر لیا۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی ا سی باغ میںملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ آج پاکستان اور صوبوں میں پیپلز پارٹی کے اتحادیوں کی حکومت ہے مگر افسو س اس بات کا ہے کہ آج پانچ سال گزرجانے کے باوجود محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث عناصر منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔ شہید بے نظیر کے جدا ہونے کے بعد آج ملک میں ہر جگہ انارکی پھیل رہی ہے ۔ وہ سیاستدان جو پاکستان کی اکائی کے لیے جان نثار کر گئی آج اسی کی جماعت کی حکومت میں ہر طرف بدامنی اور وحشت و دہشت کا سماں ہے۔

اس موقع پر ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعاہے کہ اللہ صدرِ پاکستان اور پی پی پی کی قیادت کواقتدار ختم ہونے سے پہلے یہ توفیق دے کے وہ محترمہ بے نظیر شہیدکے قاتلوںکوبے نقاب کریں اور اِنہیں ان کے انجام تک پہنچئیں ورنہ بے نظیر کے متوالے یہ ہی کہتے نظر آئیں ”بے نظیر ہم شرمندہ ہے تیر ے قاتل زندہ ہیں”۔

تحریر : عقیل خان