تشدد کی راہ

TARIQ BUTT

TARIQ BUTT

21 ستمبر کا احتجاج پر امن رہنا چائیے تھا لیکن شمعِ رسالت کے پروانوں نے حکومت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اس احتجاج میں شمعِ رسا لت کے پروانے اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور صورتِ حال ان کے قابو سے باہر ہو گئی ۔یہ سچ ہے کہ جمعے کا دن یومِ عشقِ رسول کیلئے مخصوص کیا تھا لیکن عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبات کو روکنا اس دن کسی کے بس میں نہیں تھا ۔وہ اپنے جذبات کی رو میں تشد دکی راہ پر نکل گئے اور وہ کچھ ہو گیا جو اسلام کے امن و محبت کے فلسفے کے خلاف ہے۔پر امن احتجاج سب کی خواہش تھی لیکن جمعے کا احتجاج پر امن نہیں رہ سکیگا مجھے اس کا پکا یقین تھا کیونکہ ہماری تاریخ یہی بتا تی ہے کہ ہم نے ہر موقع پر وہ کچھ کیا جوہمیں نہیں کرنا چائیے تھا۔ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا کے مصداق جب یکجہتی دکھانا مقصود تھی ہم نے جنگ وجدل کا منظر پیش کیا اور جب احتجاج کرنا مقصود ہوتا ہے ہم خا موش ہو جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ جب بات مذہبی پیشوائیت کے ہاتھ میں جاتی ہے تو پھر تشدد کی راہ اپنانا بالکل فطری عمل بن جاتا ہے ۔میری دعا تھی کہ قوم صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس احتجاج کو پر امن طور پر مناتی تاکہ دنیا اس نعرے پر کہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے اس پر یقین لے آتی لیکن ایسا ہو نہ سکا اور آج ہم جگ ہنسائی کا سبب بنے ہو ئے ہیں۔ ہمیں ہر حال میںہوش وحوا س بحال رکھ کر اس دن اپنے احتجاج کو پر امن طریقے سے منانا تھا تا کہ ہمارے دشمنوں کو ہزیمت اور شرمندگی اٹھا نی پڑتی لیکن الٹا ہم نے خود کو تشدد کی راہ پر ڈال کر اسلام پر دھشت گردی کے الزام کو صحیح ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر تشدد اور تحریب انگیز حملوں کو روکتے ہوئے29 افراد لقمہِ اجل بنے اور 2000 پولیس والے زخمی ہوئے ہیں جو کہ باعثِ شرم ہے۔ کیا پولیس والے عاشقانِ رسول نہیں ہیں؟ کیا ان کے دل میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت موجزن نہیںہے ؟ کیا اسلام کی حرمت پر مٹنے کا جذبہ ان کے اندر بھی دوسرے ہم وطنوں کی طرح نہیں ہے ؟بالکل ہے لیکن ہماری جہالت کی انتہا ہے کہ ہم نے انھیں زخمی بھی کیا اور موت سے ہمکنار بھی کیا۔ بینکوں کو لوٹنا ،پٹرول سٹیشنوں کو جلانا ،بسوں کو آگ لگانا ، ٹائر جلانا اور گھروں پر حملے کرنا کہاں کی عاشقی ہے؟ کئی سال قبل امریکہ میں ا فغا نستانی جنگ کے خلاف لاکھوں کے جلوس نکلے لیکن نہ کوئی سٹریک لائٹ ٹوٹی اور نہ ہی کسی شخص کو خراش تک آئی۔

یورپ کو علم ہے کہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہیں لہذا وہ جان بوجھ کر کوئی ایسی توہین آمیز حرکت کر دیتے ہیں اور مسلمان سایوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ہی ہمو طنوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ہڑتالیں ، جلوس اور توڑ پھوڑ روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں جس سے کمزور ملکی معیشت مزید ضعف کا شکار ہو جاتی ہے۔کوئی ان عاشقوں سے پوچھے کہ یہ کونسی عاشقی ہے کہ اپنے ہی گھر کو آگ لگانی شروع کر دی جائے؟عاشقی تو صبرو تحمل اور برداشت کا درس دیتی ہے لیکن ہم ہیں کہ ہنگامے کو عاشقی کا نام دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کچھ شر پسند عناصر ان جلوسوں میں شامل ہو گئے تھے لیکن کیا کسی نے ان شر پسندوں کو رو کنے کی کوشش کی ؟لوٹ مار میں ہر شخص نے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس وقت انھیں یاد نہ رہا کہ قومی املاک کو نقصان پہنچانا اور بینکوں کو لوٹنا کتنا بڑا جرم ہے ۔اس دن ملک کا چپہ چپہ میدانِ جنگ بنا ہوا تھا اور پرامن لوگوں کے لئے کہیں پر بھی آنا جانا ممکن نہیں تھا۔

کئی بیمار محض اس وجہ سے ہسپتال نہیں پہنچ پائے کہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے راستے بند کر رکھے تھے۔ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے اور مشتعل عوام نے ہر حد عبور کر رکھی تھی۔مجھے یقین ہے کہ پاکستانی سچے عاشقانِ رسول ہیں ۔ یہ سارا کھیل ان شدت پسند مذہبی جماعتوں کا رچا یا ہوا ہے جو اس دن بھی سیاست کرنا چاہتی تھیں اور حکومت کو بدنام کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا ھدف در اصل وہ علاقے تھے جہاں پر دنیا بھر کے ڈپلومیٹ تھے ۔ وہ وہاں پر کوئی ناخوشگوار واقعہ کر کے حکومت کو مشکل سے دوچار کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ان کے عزائم کو ناکام بنا کر رکھ دیا۔ یہی وہ موقع تھا جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمت دکھائی اور شدت پسند مذہبی جماعتوں کے جھانسے میں نہیں آئے۔ انھیں ناکام و نامراد کر کے ڈپلو میٹس کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس فریضے میں جن لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ اس دھرتی کے شہید ہیں اور حکومت کو چائیے کہ ان کے لئے خصوسی ایوارڈ اور انعامات کا اعلان کرے۔
پوری اسلامی دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اس توہین آمیز فلم کے خلاف قومی تعطیل کا اعلان کیاتھا ۔ یہ حکومت کی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری محبت کا غماض بھی ہے اور اس کی بالغ نظری کا ثبوت بھی ہے ۔ حکومت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ ہم آقا ئے دو جہان حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت اور تقدس پر ایک ہیں۔، ہم اس سوال پر متحد ہیں کہ دنیا کی کسی حکومت اور فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری محبوب ترین ہستی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرے اور ان کے خلاف توہین آمیز جذبات کا اظہار کرے۔ہمیں حکومت کے اس فیصلہ کو سراہنے کی بجائے اسے ہی بدنام کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔پر تشدد مظاہروں سے اسے دفاعی انداز اپنانے پر مجبور کر دیا

۔وزیرِ اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف بار بار اعلان کر چکے تھے کہ ہم توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف پوری دنیا میں مشن روانہ کریں گئے ۔ صدرِ پاکستان نے اسے اقوامِ متحدہ کے فورم پر اٹھا کر دنیا کو یہ بتا دیا کہ ہم اپنے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں کسی بھی قسم کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔مذہبی جماعتیں ہیں کہ یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔انہیں تو اپنی سیاست چمکانے اور حکومت کو دبائو میں لانے کے لئے کوئی بہانہ چائیے لیکن جمعہ کے پر تشدد واقعات کے بعد ان کی جو سبکی ہو ئی ہے اس سے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں۔ یہ تو طے ہے کہ ایسے پر تشدد مظاہرے مذہبی جماعتوں کے کارکن ہی کر سکتے ہیں ۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم جو کہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی قوت رجھتی ہیں وہ تو حکومت میں ہیں لہذا اس طرح کی پر تشدد حرکتیں ان کے کارکنوں کی طرف سے ممکن نہیں تھیں۔ اب یہ کام مذ ہبی جماعتوں کے علاوہ کوئی دوسرا کر نہیں سکتا۔ مذہبی جماعتوں کے ساتھ ان جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہو گئے جن پر حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔اس طرح دونوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے وہ کچھ ہو گیا جس سے پوری عالمی برادری صدمے کا شکار ہے۔پنجاب حکومت نے بھی اس معاملے میںاپنی پرانی روش کا مظاہرہ کیا ہے۔ پنجاب کے وزیرِ اعلی میاں شہباز شریف کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے جس میں وفاقی حکومت کی سبکی ہو۔مسلم لیگ (ن) کے مذہبی جماعتوں کے ساتھ بڑے گہرے مراسم ہیں لہذا انھوں نے انھیں کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ توڑ پھوڑ کریں اور ان علاقوں میں گھسنے کی کوشش کریں جس سے وفا قی حکومت کی بدنامی کا امکان ابھرے۔پنجاب کی حکومت اسی طرح کی حرکات کا ارتکاب کیاہے جس طرح کا مظاہرہ اس نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف جلوسوں میں کیا تھا۔یہ تو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی دور اندیشی کا کمال تھا کہ انھوں نے جمعے کی تعطیل کر دی وگرنہ پی پی پی کے ممبران اور ورکروں کا وہی حشر ہوتا جو 1977کی قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ہوا تھا۔یا جس طرح کا حال میاں شہباز شریف کی زیرِ سر پرستی لوڈ شیڈنگ کے جلسے جلوسوں میں پی پی پی کے وزیروں پر حملوں کی صورت میں ہوا تھا۔امریکہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مسلمانوں سے ہمدردی کا مطاہرہ کرے گا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔اس نے پہلے ہی عراق لیبیا اور افغانستان میں اپنی فوجیں اتاری ہو ئی ہیں۔ شام کے اندر وہ کئی مہینوں سے باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔

protest

protest

وہاں پر فضائی ححملوں کے لئے سیکورٹی کونسل سے مداخلت کرنے کی استدعا کر رہا ہے جسے روس اور چین ہر بار ویٹو کر دیتے ہیں اور یوں امرکی عزائم پورے نہیں ہو رہے جس کا اسے بڑا غصہ ہے لیکن کیا کیا جائے روس اور چین کے شام میں اپنے مفادات ہیں جن سے وہ فی الحال دست کش نہیں ہو نا چاہتے ۔کل کو کوئی ایسا وقت آجائے کہ روس اور چین کو امریکہ نئی پیش کش کر دے جن سے انھیں تجارتی فائدے ہوتے ہوں تو وہ امریکہ کو راستہ دے دیں گئے ۔ روس اور چین کو بخوبی علم ہے کہ اگر امریکہ ایک دفعہ شام میں گھس گیا تو پھر مشرقِ وسطی میں ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا اور وہ مشرقِ وسطی کی سیاست سے بالکل آئو ٹ ہو جائیں گئے جس کے وہ اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے۔ اب امریکہ کی نظریں ایران پر گڑی ہوئی ہیں۔ وہ کسی مناسب موقعے کی تلاش میں ہے تاکہ اسے بھی اپنے مکروہ عزائم کا نشانہ بنا سکے اور یوں مسلم ریاستوں پر اپنے سامراجی پنجے زیادہ شدت سے گاڑ سکے۔امریکہ کو مسلمانوں کے بپھرے ہوئے جذبات کا احساس کرتے ہو ئے کو ئی سخت قدم اٹھا نا ہو گااور فلم ساز ٹیری جونز کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا۔ امریکی حکومت کو اس فلم کو فی الفور بین کرنا ہو گا اور فلم ساز کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنا ہو گا اور اسے سخت سزا دینی ہو گی کہ اس نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانو ں کا دل دکھایا ہے۔

امریکہ کے لئے اپنی عزت بچانے کا ایک ہی طریقہ باقی بچا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ سے معافی مانگے نہیں تو اس کے لئے کسی بھی اسلامی ملک میںاپنا وجود برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔اس سے پہلے لیبیا میں امریکی سفیر کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور اگر امریکہ نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو یہ کہانی دوسرے ملکوں میں بھی دہرائی جا سکتی ہے۔ امریکہ کو اس گستاخانہ فلم کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کیونکہ یہ فلم مسلمانوں کے ایمان کا معاملہ بن چکا ہے اور مسلمان اپنے ایمان کی خاطر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گئے لہذا پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے امریکہ کو کوئی اہم قدم اٹھا کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔

تحریر : طارق حسین بٹ