حاجی محمد اسلم پرویز بھی رُخصت ہو گئے

Shafqat Ali Raza

Shafqat Ali Raza

دو ماہ پہلے تک ہم بارسلونا سنٹر کی گلی ،سانت انتونی آباد ، کے 22 نمبر مکان میں رہتے تھے ۔ادارہ منہاج القران کا اسلامک سنٹر بھی گھر کے قریب تھا منہاج القران کی لائبریری میں کبھی سپانش کلاس پڑھنے جاتے ،کبھی لیپ ٹاپ خراب ہو جاتا تو محترم نوید احمد اندلسی سے ٹھیک کروا لیا کرتے ،سپانش پڑھانے اور کمپیوٹر کے متعلق بہت کچھ بتانے کی وجہ سے نوید احمد اندلسی کو ہم ہمیشہ اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے اور یہی عمل زندگی بھر ساتھ جانے والا ہے ۔لائبریری اور کبھی مسجد کے اندر ورنی حصہ میں منہاج یوتھ لیگ کے ممبران اور عہدیداران سے ملاقات ہو جاتی دراصل ان ملاقاتوں کا موجب بھی استاد محترم ہی تھے ۔یوتھ لیگ ان کا احترام کرتی اسی حوالے سے ہم بھی محترم قرار پاتے تھ۔

یوتھ لیگ میں ایک بچے سے ملاقات ہوئی گورا سا ،دراز قد اور انتہائی شریف النفس انسان ملا اور ملتے ہی بیٹوں بھائیوں اور اپنوں کی طرح دل میں اُتر گیا ۔میں جب بھی اس بچے یعنی بلال یوسف سے ملتا اپنائیت کا احساس ہوتا تھا ۔بلال کی شریف النفسی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہے ؟ منہاج یوتھ لیگ کی رفاقت اور والدین کی پرورش تک دھیان پہنچا ۔یوتھ لیگ کے تمام ممبران واقف ہو گئے تو ایک دن بلال یوسف کے والد محترم سے ملاقات ہوئی انہوں نے اپنا تعارف حاجی محمد اسلم پرویز کے نام سے کروایا ،بلال نے راقم کا نام اپنے والد کو بتایا ۔تعارف کے بعد اسلم صاحب نے سب سے پہلی بات یہی کی کہ آپ پہلی ہی فرصت میں ہمارے گھر تشریف آور ہوں اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائیں ،میں نے ان کی شریفانہ اور بھائی چارے سے بھر ی ہوئی خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ،وقت گزرتا رہا بلال کو ایک ہفتے میں دو چار بار ملتا تو ان کے ابو کی صحت کا پوچھتا اور انہیں سلام ضرور بھیجتا ،بلال میرے وہ سارے سلام اپنے ابو کو جا کر دیتا اور وہ جواب میں میری سلامتی کی دعا کرتے تھے ،اس دعا کا مجھے اس دن پتا لگا جب میں نوید احمد اندلسی کے ساتھ اسلم پرویز صاحب کے گھر ان کے ایک عزیز کی وفات پر دعائے مغفرت کے لئے گیا ۔دعا سے فارغ ہو کر ہم نے اجازت مانگی تو وہ اس شرط پر ملی کہ ہم دوبارہ ان کے گھر آئیں گے وعدہ کر کے ہم چل پڑے ۔

پھر ایک دن اطلاع ملی کہ حاجی اسلم پرویز صاحب کا کوئی آپریشن ہوا ہے اور اب وہ گھر پر ہیں ،میں نوید احمد اندلسی کے ساتھ تیمارداری کے لئے اسلم پرویز صاحب کے گھر گیا ۔وہ اتنے پیار اور محبت سے ملے کہ ہم یہ بھول ہی گئے ہم کس کام آئے ہیں ،وہ بیمار لگ ہی نہیں رہے تھے اور ہم انہیں یہ یاد نہیں کروانا چاہتے تھے کہ ہم آپ کی بیماری کا سن کر آئے ہیں ،لیکن آخر بات نے اپنا رُخ موڑا اور اسلم پرویز صاحب کی بیماری کی بات شروع ہو گئی انہوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں بہت محنت کی ہے میں کام پر ہوتا تو کبھی کبھی کھانسی ہو جاتی میں کھانسی کی معمول کے مطابق دوائی لے لیتا ۔مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی ۔

بس ایک دن ڈاکٹر نے مکمل چیک اپ کا کہا اور رزلٹ آنے پر پتا چلا کہ کینسر کی شکایت ہے لیکن شروع کی اسٹیج پر پتا چلنے کی وجہ سے اس کا علاج ممکن ہے اب میں اسی علاج کے پہلے مرحلے کا آپریشن کروا کر ہسپتال سے فارغ ہوا ہوں ،انہوں نے ہنستے ہنستے ساری بات سنا دی میں نے ان کی بات کے اختتام پر حیرانگی سے نوید احمد اندلسی کی طرف دیکھا توان کی آنکھوں میں بھی حاجی اسلم پرویز کی بے فکری اور بہادری پر مبنی بات چیت کی فکر انگیز پرچھائیاں نظر آئیں ۔اسی اثنا میں حاجی اسلم پرویز نے دوبارہ مسکراہٹ کے ساتھ بات شروع کی اور کہا کہ اس میں فکر مند ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے جو شخص دنیا میں آیا ہے جب اس کا دانہ پانی ختم ہو جائے گا تو وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس ضرور جائے گا اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرانی چاہئیں میں اس دن کے لئے بھی تیار ہوں۔

وہ بات کرتے جا رہے تھے اور ان کا موت پر اتنا پختہ ایمان ہمیں حیران ششدر کرنے کے لئے کافی تھا ،حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے محفل کو کشت زعفران بنانے کی کوشش کی اور اسلم پرویز صاحب کا دھیان دنیا داری کی طرف پلٹ دیا ۔میں اور نوید احمد اندلسی صاحب اسلم پرویز صاحب کی ہمت کوداد دیئے بغیر نہ رہ سکے ۔اسلم پرویز صاحب جب تک باتیں کرتے رہے تب تک وہ بلال کو کہتے رہے ، بلال ان مہمانوں کو جوس پلاو ،ہم نے کہا پی لیا ہے ،بولے بلال انہیں فروٹ کاٹ کر دو وہ بھی کھا چکے تو کہنے لگے تب تک چائے بنا لو ۔بلال بھی اپنے والد کے منہ سے نکلی ہوئی کسی بھی بات کو رد نہیں کر رہا تھا وہ اسی وقت حکم کی تعمیل کرتا جا رہا تھا۔بلال کی شادی اور اس کے مستقبل کے بارے میں بات شروع ہوئی تو اسلم پرویز صاحب کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اُمید اور تھوڑی سی اپنی بیماری کی پریشانی کے حوالے سے کشمکش نظر آئی ۔لیکن دوسرے ہی لمحے وہ بولے اب بلال اپنے پاوں پر کھڑا ہو گیا ہے اگر مجھے کچھ ہو بھی گیا تو یہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کا خیال رکھ لے گا ۔میرے دوسرے کزن بھی یہیں ہوتے ہیں وہ بھی اس کا ساتھ دیں گے۔

اسلم پرویز صاحب کی اس بات کا اثر جب انہوں نے بلال کی پیشانی پر پڑنے والی پریشانی کی شکنوں میں دیکھا تو فوراً مسکرا کر بات تبدیل کر دی اور بولے کہ ایسی کوئی بات نہیں ڈاکٹر نے علاج شروع کر دیا ہے اب مکمل صحت یابی ہو جائے گی ،یہ تسلی ایک باپ کی طرف سے بیٹے کے لئے اکسیر کا کام کر گئی اور بلال کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔اسلم پرویز صاحب نے کہاکہ جب ڈاکٹر مجھے علاج کی غرض سے مجھ پر مختلف طریقے آزماتے ہیں تو پھر جسم میں کمزوری بہت ہو جاتی ہے لیکن کیا کریں ان تکالیف کا اپنے بچوں اور گھر بار کے لئے سامنا تو کرنا ہے ۔ہم اجازت مانگتے تو کبھی وہ نوید احمد اندلسی کو کسی بہانے روک لیتے اور کبھی کہتے شفقت بھائی بیٹھیں چلے ہی جانا ہے ان کے روکنے کے باوجود ہم اجازت لے کر اپنے گھروں کی طرف چل پڑے ۔راستے بھر نوید احمد اندلسی اور میں حاجی اسلم پرویز کے حوصلے ان کی بیماری اور ان کا اپنے بچوں پر قائم یقین جیسے موضوعات پر بات کرتے رہے۔

حاجی اسلم پرویز صاحب کے ساتھ ایک ملاقات بارسلونا ایئر پورٹ پر بھی ہوئی جب وہ اردن ایئر لائن پر فریضہ حج کے لئے جا رہے تھے میں نے ان کی تصاویر بھی بنائیں تھیں تب وہاں نواز کیانی ،محمد اقبال چوہدری ، ظل حسن قادری ،نوید احمد اندلسی ،لیاقت صاحب ، نواز قادری ،محمد اکرم بیگ ،بلال یوسف اور بہت سے افراد انہیں الوداع کہنے گئے تھے تب بھی وہ مجھے بڑے پیار سے ملے اور میں نے اپنے اخبار میں ان کے حج پر جانے کی خبر بڑے شوق سے لگائی تھی۔زندگی میں انسان دو صورتوں میں بچھڑتا ہے ۔کبھی دوسرے ملک یا شہر جانے سے اور پھر ایک بار ، مر ، کر۔ دوسرے شہر یا ملک سے بچھڑنے والا رابطہ میں رہتا ہے ای میل ، سکایپ ، ٹیلی فون بات ہو ہی جاتی ہے ۔لیکن جب انسان اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے تو پھر خالق حقیقی اس انسان کو اپنے اتنے قریب کر لیتا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے تک بچھڑنے والے کی رسائی نہیں ہوتی ۔ بس اسی طرح حاجی اسلم پرویز بھی ہم سے بچھڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے ہیں جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔

لیکن ان کی یادیں ،ان کی مسکراہٹیں ،مہمان نوازی ، جب بھی ملنا گلے لگ جانا ، آمنا سامنا ہونا تویہی کہنا کہ آپ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے ؟ بیماری سے لڑنے کی ہمت سے لبریز چہرہ ،خراماں خراماں اور آرام سے چلنا کہ زمین کو بھی پتا نہ چلے جیسی باتیں ہمیں کبھی نہیں بھولیں گی اور تمام زندگی یہ باتیں یادیں بن کر ہمارا سرمایہ رہیں گی ۔میں اور میری فیملی حاجی اسلم پرویز مرحوم کے لواحقین کو دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ غم بھلانے کی ہمت دے اور مرحوم کے درجات بلند ہوں ان کو جنت الفردوس میں جگہ ملے آمین ثم آمین
سو بار چمن مہکا ،سو با ربہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
پھیلی ہیں فضاوں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی

تحریر : شفقت علی رضا