حکمرانو وڈے شیطانو کڈو ساڈا مال ۔ شاہ بانو میر

ساری دنیا کھپ دی پئی ایہہ
چینج لیاؤ جپ دی پئی ایہ ہر پاسے ایہہ کھپ دی ایہہ
ساڈی فصلاں اڈ پڈ گئیاں تہاڈے اگ گئے وال
فاقے کٹ کٹ پیلے رہ گئے تہاڈیاں گلاں لال
لوکی مر چلے مہنگی ہوگئی دال

کسی سیانے کا قول ہے کہ عقلمند انسان وہ ہے جو کسی غلط بات پر غصے کی بجائے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنا کر دشمن کو جواب دے یہ مقولہ مجھے اس قدر پسند ہے کہ صرف اسی کو خود پے لاگو کر رکھا ہے ـ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

حیرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ پی ٹی آئی کی کیمسٹری ایک ہے ہر کارکن خواہ وہ فرانس میں بیٹھی ہوئی شاہ بانو میر ہو یا پھر پاکستان میں رہنے والا ابرار الحق دشمن کی سیاسی چاٴلوں سے گھبرانا بھول چکے ہیں ـ ہر سیاسی حملے کے بعد صرف اپنی کارکردگی پر مزید توجہ دیتے ہیں اور انفرادی نتیجہ پھر شاندار نکلتا ہے ـ جو مہینوں کی بھاگ دوڑ کے بعد کسی بھی ٹیم ورک کا ہو سکتا ہوگا ـ

ہم پی ٹی آئی کے اصل سچے کھرے اور سُچے ورکر ہیں ـ ہم انصاف کا ترازو لے کر اپنے قائد کے پیچھے چلے ہیں ـ انصاف کا زندگی کے ہر شعبے میں اطلاق کرنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں ـ پہل نہی کرتے ـ لیکن معاف بھی نہیں کرتے ـ

کمزور سیاسی کلچر رکھنے والی پرانی جماعتوں کا شروع سے وطیرہ رہا ہےکہ دولت کےاندھا دھند استعمال سے میڈیا کو گھر کی باندی بنایا ہوا ہے ـ

من پسند اینکرز کو منہ مانگے دام دے کر سیاسی ہُلڑ بازی مچا کر ریٹنگ بڑہانے کو میڈیا آجکل کامیابی سمجھتا ہے ـ یہ بھی ایسا ہی پلانٹڈ شو تھا ـ
پاکستان کا میڈیا کس قدر غیر جانبدار ہے اس کی قلعی تو کئی بار کھل چکی ـ چیخ و پکار سے نئی جماعتوں پے رعب ڈال کر ان کے رہنماؤں کو مشتعل کرنے کیلیۓ منفی سیاسی سوچ رکھنے والے عناصر منفی اندازِ گفتگو اپناتے ہیں ـ ایسا ہی اس پروگرام میں ہو رہا تھاـ ابرار کے سامنے ایک بڑی سیاسی جماعت کا کہنہ مشق سیاستداں تھا جو ابرار کے ساتھ انتہائی لغو بے معنی گفتگو کر رہا تھا ـ

پی ٹی آئی کی یہ خامی ہے جو مستقبل قریب میں بھی دور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کہ پی ٹی آئی کے اکثریتی ممبران رہنما پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں بہت کامیاب سمجھے جاتے ہیں ـ ایسے انسان سطحی سوچ نہیں رکھتے نہ ہی ان کا دماغ عام انسان کا ہوتا ہے نہ ہی وہ عام خواہشات اور معاملات رکھتے ہیں ـ یہ لوگ بلند کردار اونچی سوچ کے حامل ہوتے ہیں ـ اعلی تعلیمی ادارے ان کی ذہنی سطح کو بہت بلندی پے لے جاتے ہیں ـ انکی گفتگو کا خاص معیار ہوتا ہے ـ ان کے اندازِ فکر دوسروں سے جدا ہوتا ہے ـ ان کا کردار بہت سے لوگوں کیلیۓ رول ماڈل ہوتا ہے ـ یہ لوگ اس قسم کی بازاری اندازِ بیاں سے سخت متنفر ہیں اور ایسے جواب دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ـ ان کی اس کمزوری کو پرانی سیاسی جماعتیں ان کی کمزوری سمجھ کر جان بوجھ کر اس انداز میں گفتگو کرتی ہیں جو لچر پن کے زمرے میں آتا ہے ـ ابرار بھی اس وقت کچھ کچھ بے بس سا نظر آرہا تھا ـ

پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے نوجوان یا عمر رسیدہ رہنما کسی بھی عام پروگرام میں عام منجھے ہوئے یا گھاگ سیاسی لیڈران کا سامنا کرتے ہیں ـ وہ اپنے دماغ کو سیاسی ایشوز پر تیار کے آتے ہیں لیکن دوسری طرف عرصہ دراز سے حکمرانی کے باری باری مزے لوٹنے والی ان جماعتوں کے پاس کوئی سیاسی کارکردگی نہی ہے لہٰذا وہ اناپ شناپ بول کر ان کی توجہ غیر سنجیدہ ایشوز پے تقسیم کر کے پروگرام کا وقت پورا کرنا چاہتے ہیں ـ ایسے ہی ابرار کے ساتھ وہ بوڑھا خرانٹ سیاسی شعبدہ باز کر رہا تھا ـ ابرار نے بڑی تہذیب سے ان کو انکی عمر کا احساس دلایا لیکن گھاگ سیاسی لیڈر بڑے بڑے دانت نکالے اپنی منحنی سی داڑھی پے ہاتھ پھیر کر قہقہے لگاتا رہا ـ بے حسی جب حد سے بڑھ جائے تو انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے ـ پھر انسان اپنے ہوش وحواس کھو دیتا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یہی حال اس وقت اس نوٹنکی کا تھا ـ

Pakistan Tehreek-e-Insaf - logo

Pakistan Tehreek-e-Insaf – logo

پی ٹی آئی کا نام ان قدیم سیاسی بزرگوں کیلیۓ اگر راتوں کی نیند اڑانے کا سبب بن رہا ہے اسکی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کا تعلیم یافتہ دماغ ہے ـ یہ جسموں کی جادوگری دکھانے والی جماعت نہیں ہے ـ یہ دماغ کے کرشمے سے ملک کی تقدیر بدلنے والی سیاسی تحریک ہے جس کا روحِ رواں ایسا انسان ہے ـ جس کی ذات ہر قسم کے شک و شبہے سے بالاتر ہے ـ اسکی سیاسی بے داغ زندگی اور بہترین حب الوطنی کی سوچ آج اس مرکز( تحریک انصاف) کو پاکستان کی ناقابل تسخیر سیاسی قوت بنا چکی ہے ـ

میں جب وہ گفتگو سن رہی تھی تو میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں عمران خان سے درخواست کروں کہ جناب ہمارا واسطہ سیاسی طور پے مہذب انسانوں سے نہیں سیاسی غنڈوں سے ہے ـ اس لئے پی ٹی آئی کے اندر کوئی ونگ قائم کیجیۓ ٹیررسٹ ونگ ان سیاسی جماعتوں کی طرح نہیں ـ بلکہ ایسا ونگ جو ہمیں اتنا پختہ کر دے کہ ان بد تمیز لہجوں کو انہی کے انداز میں بدتمیزی سے جواب دینے لائق ہوجائیں ـ جس طرح ابرار تمیز سے جواب دے رہا تھا وہ انداز ان کیلیۓ مضحکہ خیز ہے یہ گالیوں اور ماردھاڑ کے کلچر سے آشنا لوگ ان دھیمی میٹھی سنجیدہ باتوں کے عادی نہیں ہیں ـ پی ٹی آئی کی اس مستقل خامی کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے ـ پروگرام ختم ہوا کئی منٹ تک افسوس سا رہا کہ ویسا کرارہ جواب مد مقابل کو نہی ملا جیسا دینا چاہیے تھا ـ

کئی بار اس کے بعد بھی ابرار کا تہذیب سے احتجاج کرنا اور مد مقابل کا بڑے بڑے دانت نکال کر ہنسنا یاد آیا ـ دل مسوس کر رہ گئی ـ لیکن
آج میں بہت خوش ہوں جس مقولے پے میں عمل کرتی ہوں ابرار نے بھی بین وہی کیا ہے ـ اس کا مطلب پی ٹی آئی کے اراکین بد تمیزی بد لحاظی سے بات کرنا نہیں جانتے لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ اپنے ساتھ کی گئی بد تمیزی کو بھول جائیں ـ آج فیس بک پے ہمارے لاہور کے بڑے جانباز قسم کے ممبر ہیں انہوں نے ایک سونگ کا لنک بھیجا ـ عموما میں پنجابی سونگ نہیں سنتی نہ ہی پسند کرتی ہوں ـ لیکن ایک تو بھیجنے والا بہت سلجھا ہوا انسان دوسرے سونگ پی ٹی آئی کا تیسرے ابرار الحق کا تو فورا ہی لنک کلک کیا اور پھر اسکے بعد ایک ایک لفظ میرے خون کی گردش کا دورانیہ بڑہاتا چلا گیا ـ اس سونگ کے اندر ایسی سیاسی تباہی مچائی گئی تھی کہ اُس دن اپنے ساتھ ہونے والی ہر بد تمیزی کا بڑا خِوبصورت اور بھرپور بدلہ لے لیا ابرار نے اپنی قابلیت کے اس خوبصورت اظہار سے ـ ہم جسے لاجواب کہتے ہیں ایسے ہی نہی کہتے پی ٹی آئی کا اصل کارکن اصل جانباز وہ ہے جسے کوئی لالچ نہی کوئی ذاتی مفاد نہیں ان کے جواب ایسے ہی بھرپور اور منہ توڑ ہوتے ہیں ـ کہ یہ سونگ گلی کوچے میں مقبولِ عام ہوگا اس کا انداز بیاں اسکی خوبصورت دھن اگر مجھے کئی بار سننے پے مجبور کر چکی ہے تو سوچ لیجیۓ کہ پاکستان کا پنجابی سننے کا شوقین شہری کتنی بار سنے گاـ اس سونگ کے نادر پاکستان کے بد حال مظلوم بھوکے عوام کے دکھ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ـ

Abrar-ul-Haq

Abrar-ul-Haq

ابرار الحق آپ نے اسی قول کو سچ ثابت کر دکھایا کہ اگر آپ میں صلاحیت ہے ـ دشمن کی منفی بات کا اپنی صلاحیت کو اور بہترین بنا کر اسکا جواب دیں ـ

شاباش ابرار آپ کے”” حکمرانو بڑے شیطانو”” نے مجھ سمیت پی ٹی آئی کے ہر اصلی ممبر کا دل خوش کر دیا ہے ـ یہ سونگ پی ٹی آئی کی نہ صرف مثبت شہرت کا باعث بنے گا بلکہ بچے بچے کی زبان پر ہوگا ـ یہ ہے وہ جواب جو شائد ابرار بدتمیزی سے دیتا تو ُپراثر نہ ہوتا لیکن اتنے خوبصورت انداز میں ایسا بھرپور جواب دیا ہے کہ دل کہ اٹھا بے ساختہ

وہ دن گیا جب ہر سِتم کو آداب محبوب سمجھ کر چُپ تھے
اٹھے گی ہم پرجو اینٹ کوئی تو پتھر اس کا جواب ہوگا

حکمرانو وڈے شیطانو کڈو ساڈا مال
تحریر: شاہ بانو میر