دہشت گردی یا جہاد

Rohail Akbar

Rohail Akbar

دہشت گرد اعتدال پسند پشتونوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان صوبہ خیبر پختونخوا کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اس صوبے میں جہاں دیگر اہم سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا وہاں دہشت گردوں کا بڑا ٹارگٹ عوامی نیشنل پارٹی بھی ہے۔اے این پی صوبے کی بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ اسلام آباد میں وفاقی حکومت کی اتحادی اور پشاور میں حکمران جماعت بھی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف کارروائیوں کے دوران اے این پی کے رہنما و سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کو بھی نشانہ بنایا گیا بشیر بلور نے اپنے نظریہ اور مقصد کی خاطر جان دیدی لیکن دہشت گردوں کے سامنے سر نہیں جھکے بشیر بلو seasoned سیاستدان اور آمریت کیخلاف آواز اٹھانے والے عمدہ انسان تھے ان کا نقصان پورے پاکستان کا نقصان ہے حالیہ دنوں میں اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے جلسے پر بھی خود کش حملہ کیا گیا،2008 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اے این پی نے مالا کنڈ ڈویژن میں فعال عسکریت پسندوں سے مذاکرات شروع کیے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مخالفت کے باوجود اس سیکولر پارٹی نے عسکریت پسندوں کے مطالبات تسلیم کیے تاہم دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی نہ آئی جس پر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اس آپریشن کے رد عمل میں عسکریت پسندوں نے اے این پی کے کارکنوں اور ارکان پارلیمنٹ کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔جہاں اسفندیار ولی خان پر ناکام خود کش حملہ کیا گیا وہاں سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور سمیت تین ارکان پارلیمنٹ کو خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیااوراب تک اس جماعت کے 550 سے زائد کارکنوں اور عہدیداروں کو شہید کیا جا چکا ہے،بشیر احمد بلور پشاورمیں ایک جلسے پر حملے میں شہید ہو گئے۔

افغان جہاد کے دوران امریکی ڈالروں سے مجاہدین تیار کئے گئے اور دلیل یہ دی گئی کہ وہ روس کی سرخ آندھی کا مقابلہ کریں گے لیکن سرخ آندھی کو روکنے کیلئے ریگولر آرمی سے کیوں کام نہ لیا گیا مدرسوں اور مختلف علاقوں سے مجاہدین بھرتی کرکے ان کو ٹریننگ دی گئی جنہوں نے دس سال کی جنگ میں روس کو شکست دی لیکن اس کے بعد اس پرائیویٹ آرمی کو ختم نہیں کیا گیا یہ کمیٹڈ لوگ تھے ان کو آزاد چھوڑ دیا گیااورپھر یہ دہشت گردی افغانستان سے پاکستان میں آگئی اور اس تشدد نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا امریکہ کے کہنے پر کبھی مجاہدین اور اور کبھی ان مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا گیا اب افغانستان میں نیٹو، امریکا اور افغانستان کی فوجیں موجود ہیں۔ یہ لوگ وہاں دہشت گردوں کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام، فوج اور سکیورٹی کے ادارے ملکر یہاں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تبھی یہ ممکن ہو گا کہ اس پورے خطے سے دہشت گردی ختم ہو۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ایسے وقت میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں عام انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم شروع کر چکی ہیں۔

ایسے میں جہاں بشیر بلور کو خود کش حملے میں شہید کیا گیا وہاں چند روز قبل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے اپنے آبائی حلقہ چارسدہ میں ہونے والے ایک جلسہ عام میں بھی دھماکہ کیا گیا، اے این پی کے جلسوں اور اجتماعات میں مسلسل بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی وجہ سے عوامی شرکت کم ہو جائے گی۔ اگرچہ بشیر بلور کی شہادت کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی اکثریت عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور بات چیت کے حق میں نہیں اور وہ وفاقی حکومت سے ان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں کے بعض لوگوں کا موقف اس سے مختلف ہے جبکہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اگر امریکا اور نیٹو افغانستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ بار بار آپریشن کی ہم حمایت نہیں کر سکتے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اور طویل جنگ کے بعد بھی مسائل مذاکرات اور بات چیت سے ہی حل کرنا ہوں گے۔ واضح رہے کہ 2008 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران عسکریت پسندوں نے جہاں پاکستان بھر میں عوامی نیشنل پارٹی کے لوگوں نشانہ بنایا وہاں فروری 2012 تک دستیاب سرکاری اعداد و شمار کی رو سے 10 ہزار 168 افراد دہشت گردی کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔ ان میں 3240 شہری، 1163 سکیورٹی اہلکار اور 5765 عسکریت پسند شامل ہیں۔

Bashir Bilour

Bashir Bilour

پاکستان میں آج تک جہالت اور پسماندگی کیخلاف جہاد نہیں کیا گیا مغرب کی ترقی وجہ جمہوریت اور اتفاق رائے ہے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے جمہوری قوتیں متحد ہو جائیں پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنیوالوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں کیونکہ دہشت گردی سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا معصوم ذہنوں کو ورغلا کر اپنے مقاصد کیلئے نا بالغ بچوں کو ہیومن بم کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سوچ تبدیل کرنے اور مذاکرات کی ضرورت ہے۔

تحریر : روہیل اکبر
03466444144