ذوالفقار علی بھٹو

Zulfikar Ali Bhutto

Zulfikar Ali Bhutto

ذوالفقار علی بھٹو نے 30 برس کی عمر میں پاکستان کے وزیرتجارت بن کر برصغیر کی تاریخ میں کم عمرترین وزیر بنے کا اعزاز حاصل کیا۔

بیسویں صدی کے عظیم انقلابی رہنما ذوالفقارعلی بھٹو 5 جنوری1928ء کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سر شاہنواز بھٹو ایک بڑے زمیندار اور زیرک سیاستدان تھے تاہم آپ کی والدہ کا تعلق غریب خاندان سے تھا۔ سر شاہنواز بھٹو ایک برطانوی امپریل کو نسل کے رکن تھے ان کا بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی گہراتعلق تھا۔ سرشاہنواز ریاست جو نا گڑھ کے وزیراعظم بھی رہے۔ سر شاہنواز کے دوسرے بیٹے اور ذوالفقار علی کے بھائی سکندر بھٹو بھی تھے جو28 اکتوبر1962ء کو انتقال کر گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو لڑکپن سے ہی سیاست کی طرف مائل تھے۔ برطانوی حکومت کے خلاف جب Quit India اور راست اقدام تحریک چلی تو نوجوان علی بھٹو اس میں شامل تھے دوران تعلیم برکلے یونیورسٹی کیلفورنیا میں بھی آپ نو ا بادیا تی نظام کے خلاف سر گرم عمل رہے۔ وہیں سے آپ نے1950ء میں اعزاز کے ساتھ پولیٹکل سائنس میں گریجویشن کی۔ ایم اے انرز کی ڈگری جو رسپوڈنٹس میں اعزاز کے ساتھ کرائسٹ چرچ اکسفورڈ سے حاصل کی ۔ بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری”لنکنزان” سے لی۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں سے قائداعظم نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کچھ عرصہ سو تھہمٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرار بھی رہے، وہ پہلے ایشیائی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا۔ پاکستان واپسی کے بعد 1953ء میںآپ کراچی میں مستقبل ان کا منتظر تھا ، وہ صدر پاکستا ن سکندر مرزا کی نظروں میںآگئے اور ان کی خواہش پر اقوام متحدہ کے 12ویں اجلاس میں پاکستانی وفد کے ممبر کے طور پرشریک ہوئے ۔ اگلے برس 1958ء میں وہ اس وفد کے سربراہ تھے۔ 30 برس کی عمر میں آپ پاکستان کے وزیرتجارت بنے توبرصغیر کی تاریخ میں کم عمرترین وزیر بنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

دوسال کے بعد آپ نئی تخلیق پانے والے وزارت پٹرول ، قدرتی وسائل کے وزیر بنائے گئے۔1960ء میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آپ کو پاکستان کی ترجمانی کرنے کا جو اعز از حاصل ہوا، اسی کی بدولت آپ دنیا بھر میںممتاز مقام حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے ۔

تین فروری 1963ء کو وزیر خارجہ کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر پر بھر پور آواز بلند کی اور بھارت پر زور دار حملے کیے ۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پید اہونے والی صورتحال نے آپ کو مایوس کیا روسیوں کی مصالحت او ر نگرانی میں ہونے والے معاہدے تاشقند پر مسٹر بھٹو نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور 1966ء میں وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ استعفیٰ کے بعد عملی سیاست میں آئے اور ایوب آمریت کو چیلنج کیا۔

30نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی نام سے ایک جماعت بنا ئی جسے عوام نے بڑے پیمانے پر پذیرائی بخشی گلبرگ لاہور میںڈاکٹر مبشر حسن کی کوٹھی پر اس کا تاسیسی اجلاس ہوا جولوگ اس اجلا س میں شریک ہوئے ان میں نئے سیاسی ذہنوں کی اکثریت تھی ، زیادہ تر پر جوش طالب علم تھے۔ جو اہم لوگ شریک ہوئے، ان میں جے اے رحیم ، عبدالوحید کپٹر ، خورشید حسن میر ، شیخ محمد رشید ، حیات محمد ، شیر پاؤ ، امان اللہ ۔معراج محمد خانِ، حق نواز گنڈا پور ، ڈاکٹر مبشر حسن ، بیگم شاہین حنیف رامے، بیگم انور غالب ،ملک حامد سر فراز ، غازی ذکاء الدین ، کامریڈ غلام احمد ، رفیق جافوپ ۔ وغیرہ شامل تھے۔

تاسیس اجلاس میں جب اسلم گرداسپوری نے جاگیرداروں کے خلاف نظم پڑھی تو بھٹو صاحب کی طرف منہ کرکے ”معذرت کے ساتھ ”کہا جس پر بھٹو نے No معذرت ” کہہ کر ان کا حوصلہ بڑھایا اور یوں پیپلز پارٹی کا انقلابی سفر آگے کی جانب بڑھنے لگا ۔ 1970ء کے انتخابات میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میںفقید المثال کا میابی حاصل کی اور 81 نشستیں جیت لیں۔

16دسمبر 1970ء لو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کی زیر کمانڈ فوج نے ہتھیار ڈالے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور مسٹر بھٹو کوگرفتار کر لیا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد رہا ہوئے مگر فوراً ہی ایک مقدمہ قتل میںدوبارہ حراست میں لے لیے گئے ایک انتہائی جانبدار اور مشکوک ٹرائل کے بعد بھٹو سے ذاتی عناد رکھنے والے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کی سر براہی میں ججوںکے پینل میںآپکو سزائے موت سنائی گئی جسے بعد میں سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے یعنی 4۔3کے اختلافی فیصلے کی صورت میں برقرار رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی جسے مسترد کر دیا گیا ۔ چار اپریل 1979ء کو یہ عہد ساز سیاست دان زندگی کی بازی ہار گیا اور راوالپنڈی کی سینٹر جیل آپ کی مقتل گاہ قرار پائی۔ یہ جیل اپنی بد نصیبی پر آج بھی نوحہ گھر ہے ۔

بقول شاعر
جس دہج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں