شرمناک حملہ مگر طالبان کی ناٹو نوازی۔؟

Taliban

Taliban

پاکستان کی سرحد پر ناٹو افواج کی جانب سے فضائی حملہ نا صرف افسوس ناک تھا۔ بلکہ شرمناک تھا۔ یہ امریکہ کی ایک دانشتہ شرارت تھی۔ ناٹو کے اس حملہ میں تقریباً تیس پاک فوجی جاں بہ حق ہوگئے۔یہ حملہ ایک ملک کی آزادی ، خود مختاری و سا  لمیت سے اعلانیہ کھلواڑ تھا۔اس حادثہ نے امریکہ و ناٹو کے ظلم و بربریت کو پوری دنیا میں آشکارہ کرکے رکھ دیا۔ کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کب تک ظالم کے ظلم کو سہتی رہے گی۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ صبر کا باندھ ٹوٹ چکا ہے۔ کہ اب حلیف کو بھی محسن نہیں سمجھا جارہا ہے۔ایسے حالات میں اب دفائی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے۔ اعلانیہ پاک فوجیوں پر حملہ ان کو موت کے منہ دکھیلنے والے ظالم سے مقابلہ آرائی  نہ کی جائے بلکہ اس سے کہا جائے کہ وہ چپ چاپ اس خطہ سے راہ فرار اختیار کرلے ۔اور دنیا میں دھشت گردی کا ناٹک بند کردے۔مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے اس نے القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ، جماعت دعوة،حقانی گروپ ودیگر اسلامی حلیہ شکلیں بنائیں ہیں۔ جو تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ کو دھمکیاں دیتی ہیں ، جن سے مسلم رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں جہاد کا پرچم تھماکر عالم کے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ میںقرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار دیکھا کر گمراہیت بھری تحریک پوری دنیا میں چلائی جاتی ہے۔ امریکہ کے ان مکھوٹوں کو مسلم عوام اپنا ہمنوا سمجھیں۔ان سے ہمدری کریں۔ ان کو اپنی حمایت دیں۔اور ان کو مسلمانوںکا خیر خواہ اور امریکہ کا بدترین دشمن مان لیں۔ یہ امریکہ کی گمراہیت سے بھری تحریک ہے۔ ان اسلامی شکل و حلیہ مکھوٹوں کو تخلیقی کیسٹوں سے مشتہر کرکے ان کو مسلم عوام کے درمیان لایا جاتا ہے۔ ان کا وجو د صرف اور صرف مصنوعی ہوتا ہے۔دھشت گردی کا حوالہ دیکر ان کو حلیہ دنیا کے سامنے پیش کرکے امریکہ ان کا بہانہ بنا کر دنیا کے ہر ملک اور خطہ میں حملے کرکے ان تخلیقی مکھوٹوں میں جان ڈالتا ہے۔ کہ ان کا وجود ہے۔ جبکہ وہ کاغذی شیروں پر حملہ کرکے اپنی واہ واہ خود کرتا ہے۔ یہ اس کافریب پر مبنی انداز ہے ۔ جس سے بھولے بھالے عوام دھوکہ کھاجاتے ہیں۔اگر پاکستان میں وہاں کے فوجیو ں کے بجائے عام آدمی مارے جاتے۔تب امریکہ ان پر یہ کہ کر اپنا دامن چھٹالیتا کہ وہاں دھشت گرد لوگوںکا گروہ موجود تھا۔مارے گئے لوگ دھشت گرد تھے۔ مگر ظلم کی جب انتہا ہوجائے تو حالات از خود کروٹ لیتے ہیں۔ مگر امریکہ و برطانیہ کے مکارانہ مہم چلانے کے انداز نرالے ہوت ہیں۔ گذشتہ میں اس نے منظم طریقہ پر اپنی مکارانہ مہم کو فروغ دینے کیلئے ہی الجزیرہ عربی چینل کا وجود عمل لایا گیاتھا۔یعنی امریکہ نے اس طرز پر بھی گمراہیت پھیلانے کی بنیا د ڈال دی تھی۔ اس چینل کے نمائندے صرف مسلم عوام اور عرب حکمرانوں کی جاسوسی کیلئے مخصوص تھے۔اس چینل کاکام جذباتی خبروں کو نشر کرنا اور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کی جاسوسی کرکے اس کو امریکی انتظامیہ تک پہنچاناتھا۔ اس کام میں وہ بہت مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ عراق اور افغانستان کے عوام پر بھیا نک بمباری سے ا ن کو تباہ و برباد کردیا جس میں وہ ابھی بھی لگے ہوئے ہیں۔کہ ملکوں کو کمزورکرو ، پھروہاں سے نکل جائو، دھشت گر د حالات کی پیدائش ملکوں کو کمزور کرنے کیلئے ہے۔ مگرسچائی سے زیادہ دن فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔مگرایک سچائی اجاگر ہوئی کہ مذکورہ اس چینل کی حقیقت کاراز فاش بھی ہوا۔ جب امریکہ و برطانیہ کی ملی بھگت سے ان دونو ں ممالک میں الجریزہ کے دو انگریزی زبان کے چینل وہاں قائم کئے گئے۔ جس سے معلوم ہوا۔ کہ الجزیزہ کے ان عربی اورنگریزی چینلوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سنگین سازش رچی گئی ہے۔ان نئے قائم کردہ چینلوں میں امریکی القاعدہ کا وجود پیش کیا گیا ہے۔ ایک امریکی باشندے عظام الامریکی نامی شخص کو نمودار کیا گیا ہے۔ جس نے امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اس چینل پر دھمکی آمیز خبریں پڑھیں۔ جس یہ راز مذید فاش ہوا ۔ کہ الجریزہ کا وجود مسلمانوں ، مسلم ملکوں اور ان کے حکمرانوں کے خلاف یہود و نصریٰ کی ایک سنگین و گہری سازش کی گئی ہے۔ اس راز کے فاش ہوتے ہی ۔اب دنیا کا مسلمان الجریزہ چینلوں پر جاری ہونے والی خبروں کو تخلیقی ، مصنوعی اور بنائوٹی ما ن کرمستر د کردیتا ہے۔ اس کو سننا تو کُجااب اگر ٹی وی اسکرین پر وہ چینل آجائے تو اس کو فوراً بدل دیتا ہے۔القاعدہ ،طالبان ،لشکر طیبہ،حذب المجاہدین،جماعت دعوة ، حقانی طالبان کے دھمکی آمیز بیانات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش ہوتے ہیں۔ ان کا حلیہ تو اسلامی لباس جیسا ہوتا ہے۔ وہ لوگ ملازمت کے تحت  اس تخریبی کام لگے ہوتے ہیں۔ ان کو صرف اپنی تنخواہوں سے مطلب ہوتا ہے۔ یہودی و نصرانی لوگ مصنوعی اسلامی حلیہ اختیار کرنے میںمہارت حاصل کرچکے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے جذبات کو اسلام کی آڑ میں بھڑکاتے ہیں۔ یہ امریکہ و ناٹو کے دوست و ان کے ہمنوا ہوتے ہیں۔جہادی دھمکیاں دے کر بہت خوبصورت طریقہ سے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اِن کی امریکہ نوازی و ناٹو نوازی ان کے حال میں جاری کردہ بیان سے منکشف ہوتی ہے۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ ” وہ افغانستان میں طالبان کو تسلیم کرتے ہیں”یعنی امریکہ ۔ القاعدہ و طالبان کی آڑ میں ابھی بھی پاکستان اور افغانستان پر حملہ آور ہے۔ وہ ابھی بھی ان سے اپنی بولی بلوارہا ہے۔ طالبان نے امریکہ سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں مذید کہاکہ ”پاکستان ایک غلام ملک ہے۔اس کے مذاکرات ہمیشہ بے معنی رہتے ہیں۔ مذاکرات پر اس کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ (پاکستان) دوسروں کے اشاروں پر چلتا ہے۔ ” یہ بیان حالانکہ ایک امریکی بیان ہے۔مگر اس کو طالبان کی زبان میں پیش کیا گیا۔ جس سے مسلم رائے عامہ اِس مذکورہ بیان کوامریکہ کا نہ سمجھے۔ بلکہ القاعدہ و طالبان کا ہی سمجھے۔امریکہ کے یہ نمائندے اس کے تخلیقی طور پر تراشے ہوئے بیانات ہی پڑھتے ہیں۔ یعنی بیانات امریکہ ہوتے ہیں۔ مگر اُن کو ان سے  منسو ب کیا جاتا ہے۔ امریکہ کوہی دھمکیاں دیتے والے یہ اس کے خوبصورت مکھوٹے ہیں۔یہ تخلیقی لوگ بی بی سی کوٹیلیفون کرتے ہوئے ان کو اپنا بیان و انٹرویو  دیتے ہوئے اخباری خبروںمیں دیکھائے جاتے ہیں۔جس سے اس طرح دنیا کو ان کی موجودگی کااحساس کرایا جاتا ہے۔جبکہ یہ تنظیمیںامریکہ و برطانیہ کے مصنوعی مکھوٹے ہوتے ہیں۔ایک دھشت گردوںکی بڑی تعدادرکھی گئی ہے؟۔ جو دنیا میں کسی بھی جگہ حملہ ہونے پر بی بی سی کو ٹیلی فون کرتی ہے۔ بی بی سی کو ٹیلی فون کرکے ان کوجانکاری دینے والے ان مکھوٹوںکی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہوگی؟ بی بی سی کے پاس ان کے ٹیلی فون کے ریکارڈ و ان کے پتہ موجود ہیں۔؟عراق ، افغانستان اور پاکستان سے ٹیلی فون کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔؟ اگر وہ  دنیا میں امن کیلئے صرف پاکستان سے آنے و جانے والے ٹیلی فون نمبروں و ان کے مقام کی جانکاری عام کردے۔یا دھشت زدہ ملک پاکستان کے حوالہ کردے۔تو دنیا میں پائیدار امن قائم ہونے کی ابتدا پاکستان سے ہی شروع ہوسکتی ہے۔پھر اس کو دنیا میں امن کیلئے خیر خواہ مانا جائے گا۔ پھر یہ بھی پتہ چلے گا۔ کہ اس کا ان لوگوں سے حقیقی رابط ہے۔یا منصوعی رابطہ ہے۔؟ وہ لوگ جن کے بی بی سی کے پاس ٹیلیفون آرہے ہیں۔ وہ لو گ فرضی ہیں یا حقیقی لوگ ہیں۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ بی بی سی کو دنیا میں امن قائم نہیں کرانا ہے۔ بلکہ جہادی دھمکیاں دلواکر ماحول میں دھشت گردی کو زندہ رکھنا ہے۔جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ ان کی خبروں و کیسٹوں کے ذریعہ تشہیر کی مہم چلتی ہے۔ ان کو ویڈیو کے ذریعہ پیدا کیاجاتا ہے۔ اس کے ذریعہ ان کا امریکی بمباری میںقتل دیکھایا جاتا ہے۔ یعنی تخلیقی حیات اور تخلیقی موت کی کہانیاں بھی ویڈیوکے ذریعہ منظرعام پر لائی جاتی ہیں۔ اور ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے۔ کہ جو اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی تنظیمیں  ہیں وہ تنظیمیںاگرالقاعدہ ،طالبان و اسلامیہ حلیہ لوگوں کے جذباتی بیان سے متاثر ہوکران کے جھانسہ میں آتی ہیں۔ تو ان کو موردالزام ٹہراکرمجرم بنایا جاتا ہے۔جس سے حقیقی اسلام کی تعلیم پر ضرب لگتی ہے۔  ابھی حال ہی میں پاک و افغان سرحد کے پاس ناٹو کے حملہ ذریعہ پاکستان کے فوجیوں کی موت کے بعد شمشی ائر بیس اور پاکستان کے راستوں سے گذرنے والی نیٹوں کی گاڑیوں پر پابندی لگائی گئی ۔ مگرمسلمانوں کے دشمن اور امریکہ نمائندوں (طالبان) نے اس پابندی کو عارضی قرارد دے کر امریکہ و ناٹو کی حمایت کردی ۔ طالبان نے بی بی سی کوٹیلی فون کرکے یہ واضع کیاکہ ” پاکستان ۔امریکہ سے تعلقات ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے”  آخر یہ وضاحت کرنے کی ہدایت اس کو کس نے دی۔ناٹو کے یہ نمائندے طالبان جو کہ کیسٹوں کے ذریعہ و اپنے نام کے ذریعہ اسلامی حلیہ ہیں۔یہ لوگ ۔پاکستانی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کا کام کررہے ہیں۔ تاکہ عوام اپنے حکمرانوں سے بدظن ہوجائیں۔ اور ان کے اشاروں پر رقص کریں۔ اسی لئے تیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی وزیر خارجہ مسز ہیلری کلنٹن اس سنگین معاملہ کو تحقیقات میں الجھاکر اس کو رفع دفع کرنے میں لگی ہیں۔ ان کے اس کام میں اسلامی حلیہ یہ دشمن اسلام ان کی اعانت و مدد کرر ہے ہیں۔  بہر حال مذکورہ المیہ کے بعد القاعدہ و طالبان کے جہادی  ودھمکی آمیز بیان ناٹو اور امریکہ کے اشارے پر آرہے ہیں۔ اب ان سے مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اب انہوں نے بی بی سی سے جاری ہونے والے بیانات کے ذریعہ یہ واضع کردیا کہ وہ ناٹو اور امریکی مفاد کیلئے پاک و افغان خطہ میں خیمہ زن ہیں اور متحد ہیں۔یہ امریکہ کی اصل حکمت عملی ہے جو صرف مسلمانوں کو بے وقوف بنانے تک محیط ہے۔ بی بی سی سے جاری ہونے والے طالبانی بیا نات بھی مسلم رائے عامہ کو دھوکہ ڈالنے والے ہی ہوتے ہیں۔ ان بیانات پر یقین کرنے والے جلد گمراہ ہوتے ہیں۔ اور جذباتی طور پر ان کی مہم حصہ نادانی میں بن جاتے ہیں۔اس لئے عقل و دانش پاس رکھنے کی قوی ضرورت ہے۔ایاز محمود۔نئی دہلی