صوبہ ہزارہ کی تحریک اور سازشیں

Najeem Shah

Najeem Shah

اتحاد کے معنی ہیں اکٹھے ہونا، متحد ہونا۔ جب تک کوئی ملک یا قوم متحد رہتی ہے یا متحد ہو کر کوئی کام کرتی ہے اُس وقت تک وہ کامیاب رہتی ہے اور جب یہ اتحاد ختم ہو جاتا ہے اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک لکڑی کو توڑنا آسان جبکہ لکڑی کے گٹھے کو توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم متحد نہیں تو وطن محفوظ رہتا ہے نہ قوم۔ اسی طرح جو قوم کسی ایک نظریئے پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے تو وہ جلد ہی اپنے مقصد میںکامیاب ہو جاتی ہے جبکہ اگر وہی قوم کوئی نظریہ تو رکھتی ہو لیکن آپس میں اتحاد اور اتفاق نہ ہو تو اس مقصد کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ایک ادھورا خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت صوبہ ہزارہ کے لئے اُٹھنے والی تحریک کو بھی درپیش ہے۔ یہ تحریک جو کئی دہائیاں قبل شروع ہوئی تھی اور اٹھارہویں ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صوبے کے نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس میں شدت آ گئی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ منہدم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس تحریک کے خلاف ہونے والی سازشیں ہیں لیکن اگر اہل ہزارہ کا آپس میں اتحاد قائم رہتا تو نہ صرف یہ سازشیں اس کا کچھ بگاڑ سکتیں بلکہ یہ ایک مثالی تحریک بن جاتی۔ صوبہ ہزارہ کے لیئے اُٹھنے والی اس تحریک کی ناکامی کے کئی اسباب ہیں۔ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کیساتھ ہی تہہ میں بیٹھی سوچ ایک عوامی اُبھار کے ساتھ نمودار ہو گئی تھی لیکن پھر وہی تحریک سازشوں کی لپیٹ میں آ کر بکھرتی گئی اور اب صورت حال یہ ہے کہ تحریک ہزارہ کے قائدین آپس میں اختلافات کا شکار ہو کر علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم سے صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے قبل ہزارہ کی عوام یہ توقع رکھتی تھی کہ میاں محمد نواز شریف صوبے کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کرینگے یا پھر صوبہ ہزارہ کی کھل کر حمایت کرینگے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میاں صاحب اگر صوبہ ہزارہ کی حمایت کرتے تو پھر لازمی سرائیکی، پوٹھوہار اور بہاولپور صوبے کی حمایت بھی کرنا پڑتی جو سیاسی لحاظ سے ن لیگ کے لیئے ایک گھاٹے کا سودا تھا۔ نواز لیگ کی جانب سے ہزارہ کے عوام کو تنہا چھوڑنے کا بھرپور فائدہ ق لیگ نے اُٹھایا لیکن یہ جماعت بھی اس تحریک کو پُرتشدد بنانے اور ہزارہ میں ن لیگ کی ساکھ کو خراب کرنے جیسے الزامات کی زد میں رہی۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ تحریک صوبہ ہزارہ کو ناکام بنانے کے لئے پوری قوت کے ساتھ متحرک ہے جبکہ پیپلز پارٹی نئے صوبوں کے قیام کو آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے ایک نعرے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔  لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی ہمارے سیاست دانوں کا ایک مضبوط ہتھیار ہے۔ یوں ہر سیاسی جماعت ہزارہ تحریک کی آڑ میں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیلتی رہی۔ ابتدائی طور پر ن لیگ اور اے این پی کے سوا تقریباً تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ ان میں اختلافات کے باعث نئے گروپ جنم لینے لگے۔ ق لیگ اس کوشش میں تھی کہ ہزارہ تحریک کی مکمل کمان اُس کے ہاتھ میں رہے لیکن جیسے ہی بابا سردار حیدر زمان نے تحریک صوبہ ہزارہ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ کروایا تو اس تحریک سے ق لیگ نے بھی اپنی راہیں جدا کر لیں اور سابق ناظم ضلع مانسہرہ سردار محمد یوسف کی قیادت میں الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ ایک نیا اتحاد صوبہ ہزارہ تحریک تشکیل دے دیا۔ جس میں مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور بابا سردار حیدر زمان گروپ کو شامل نہیں کیا گیا۔ ہزارہ تحریک کی منفرد بات یہ تھی کہ اے این پی اور ن لیگ کو چھوڑ کر ہزارہ سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتیں یک زبان ہو کر پوری طاقت سے ہزارہ صوبے کے قیام کا مطالبہ کرتی رہیں لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک طرف صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے متحرک جماعتوں کو آپس میں لڑا کر اس تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اباسین ڈویژن کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں ایک سازش کے تحت پختونوں کے خلاف تعصب پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے تاکہ نہ صرف اباسین ڈویژن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے بلکہ ہزارہ کے پشتون علاقوں کو ہندکو بولنے والوں کے خلاف استعمال کرکے انہیں ہزارہ سے کاٹ کر اباسین ڈویژن کا حصہ بنایا جا سکے۔ مانسہرہ کے قبائلی علاقہ کالا ڈھاکہ کو ضلع کا درجہ دے کر اسے تورغر کا پشتو نام دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے ورنہ کالا ڈھاکہ اس علاقے کا پُرانا نام ہے۔ سردار محمد یوسف تورغر کو ضلع کا درجہ ملنے اور اباسین ڈویژن کے قیام کے مطالبے کو خوش آئند اقدام قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا تحریک صوبہ ہزارہ کی بدولت ہی ممکن ہوا لیکن شاید وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عین ایسے وقت میں جب ہزارہ کو صوبہ بنانے کا مطالبہ شدت اختیار کر تا جا رہا ہے کالا ڈھاکہ کو ضلع کا درجہ دے کر تورغر نام دینا اور اباسین ڈویژن کے قیام کا مطالبہ کرنا صوبہ ہزارہ کی تحریک کو ناکام بنانے کی بنیادی کڑیاں ہیں۔ کالا ڈھاکہ کو تورغر کا نام دینے اور تحصیل اوگی کوبھی اس ضلع میں شامل کرنے کے مطالبے سے اے این پی کے اس مؤقف کو تقویت پہنچتی ہے کہ ہزارہ میں صرف ہندکو ہی نہیں پشتو بولنے والوں کی بھی اکثریت ہے جبکہ اباسین ڈویژن بن جانے سے بٹ گرام، شانگلہ اور کالا ڈھاکہ کے اضلاع اسکے ساتھ منسلک ہو سکتے ہیں اور یوں ہزارہ ڈویژن سکڑ کر اپنی اہمیت کھو دے گا۔ اس طرح صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیئے اُٹھنے والی تحریک بھی ہمیشہ کیلئے دم توڑ جائے گی۔ ایک اور اہم نقطہ جو ہزارہ تحریک کی ناکامی کا سبب بن رہا ہے وہ علاقائی صحافت ہے۔ اس اندیشے کا اظہار میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ مختلف سیاسی جماعتیں مقامی صحافت کو ایک ہتھیار کے طور پر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جبکہ صحافی قوم کے ترجمان، ملت کا سرمایہ اور معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تلوار وہ ہتھیار ہے جس نے دنیا کی تاریخ لکھی جبکہ قلم وہ ہتھیار ہے جو دنیا کی تقدیر لکھتی ہے۔ جس طرح صحافت کو ایک مقدس پیشے کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح صحافی کے کردار میں بھی پیغمبرانہ اوصاف ہونے کی توقع کی جاتی ہے لیکن دورِ حاضر میں یہ شناخت کافی حد تک دھندلا چکی ہے۔بعض بے ضمیر اور مفاد پرست صحافی سیاسی پارٹیوں سے بڑی بڑی رقمیں، بڑی سہولتیں اور قیمتی تحائف لیکر اِن کیلئے کام کرکے اپنا قلم اور ضمیر بیچتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہزارہ کی سرزمین پر کئی ایسے نامور صحافیوں نے جنم لیا جن کا مقدس قلم فرد، معاشرہ اور ملک کا نگہبان ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ چند کالی بھیڑیں ایسی بھی ہیں جن کے ہاتھ تحریک صوبہ ہزارہ کے شہداء کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت صرف ہزارہ کے صحافیوں پر ہی اتنی مہربان کیوں ہے۔ اے این پی کی حکومت کا ہزارہ میں صحافیوں کیلئے کالونیاں بنانے کا اعلان اور پریس کلب کیلئے فنڈز دینے کا اقدام لائق تحسین ہے مگر اسے صرف ہزارہ تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں صحافیوں کو نظرانداز کرکے صرف ہزارہ پر توجہ مرکوز کرنے سے کئی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ یہ تاثر بھی عام پایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت کو ہزارہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے مقامی اخبارات میں حمایتی خبروں کی ضرورت تھی جس کیلئے یہ اقدام اُٹھایا گیا۔  مرکزی حکومت کو آئندہ انتخابات میں ہزارہ، سرائیکی اور پوٹھوہار صوبہ بنانے کے لئے ایک نعرہ تو مل گیا ہے لیکن ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وفاقی حکومت اگر چاہتی تو وہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بھی ان صوبوں کا اعلان کر سکتی تھی لیکن وہ آئندہ عام انتخابات تک معاملے کو لٹکا کر سیاسی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہزارہ تحریک کے تمام رہنماء خواہ اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی جماعت سے ہو اپنے ذاتی مفاد کی جنگ ختم کرکے کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں تب ہی اُن کی آواز پُراثر ہوگی ورنہ صوبہ ہزارہ کے قیام کا راستہ اُس وقت تک ہموار نہیں ہو سکے گا جب تک سرائیکی یا بہاولپور میں سے کوئی صوبہ پہلے نہیں بن پاتا۔ اس اتحاد و اتفاق کی بدولت ہزارہ تحریک کے خلاف اُٹھنے والی تمام سازشیں بھی دم توڑ جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہزارہ کے غیور صحافیوں کو بھی اپنی صفوں میں موجود چند نام نہاد کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ سیاست کی طرح صحافت کا تعلق بھی سماجی خدمت سے ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ بھی میر جعفر اور میر صادق کے جانشینوں کی بدولت بدنام ہو چکا ہے۔ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر ہزارہ صوبہ کے لیئے اُٹھنے والا مطالبہ انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ قائدین کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے اختلافات سے کونسے عناصر فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی بجائے اگر ذاتی مفادات اور اختلافات کا سلسلہ یونہی جاری رہا توپھر اس تحریک کا انجام انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحریر: نجیم شاہ