عقل گو آستاں سے دور نہیں

desert

desert

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں

اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں

ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں

بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں

ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادہ ظہور نہیں

ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں ، مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں

علامہ محمد اقبال