عید الضحیٰ اور فلسفہ قربانی

eid ul adha

eid ul adha

قربانی جہاں ابراہیمی یادگار ہے وہاں سنتِ حبیب  پروردگار  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مدینے میں  دس سال قربانی کرتے رہے ایک اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قربانی ذبح فرما کر ارشاد فرمایا جس نے یہ عمل کیا ہماری سنت کو پا لیا کہا جاتا ہے کہ قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی اور یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اپنے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کے مطابق اسے اپنائے رکھا تاریخ انسان نے سب سے پہلی قربانی انسانِ اوّل حضرت ابو البشر سیدنا آدم  کے دونوں بیٹوں نے پیش کی تھی سورة المائدہ آیت نمبر ٢٧ ترجمہ ”اور انہیں ادم کے دونوں بیٹوں کی خبر ٹھیک ٹھیک پڑھ سنائیے ! جب دونوں نے قر بانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی (اس دوسرے نے ) کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا (پہلے نے ) کہا(تو بلاوجہ ناراض ہوتا ہے) اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے (بہر حال !  میںیہاں اس واقع کی تفصیل میں جانا نہیں جاتا ) واضح رہے کہ اسلام کا تصور قربانی سب سے عمدہ پاکیزہ اعلیٰ اور افضل ہے اس کے نزدیک قربانی کا مقصد عیش و طرب اور خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل اور محض جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اسلام نے اپنے متعلقین و منسلکین کو قر بانی کی صورت میں رضائے خداوخوشنودیِ مصطفی علیہ التحیة والثناء کے حصول کا بہترین طریقہ اور نفیس ترین طریقہ سیکھا دیا اور اسلام اور بانیٔ اسلام پیارے آقا حضرت محمد  مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اپنا تن من دھن نثار کرنے کا بھی عمدہ ذیعہ بتا دیا جس کے واسطے سے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی عظمت اور حبیب خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے حلوص اور ایثا ر کا جذبہ موجزن ہوتا ہے مخلوق پر وری بندہ نوازی غم گساری  اور ہمدردی کا ولولہ پیدا ہوتا ہے قربانی کا مقصد خدا کو منانا سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا طریقہ ٔ ابراہیمی کو بجا لانا اور شیطانی قوتوں کو خا ئب و خاسر  بنانا  ہے، قربانی کے متعلق حکم خداوندی  ہے کہ  ترجمہ : ”ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کریں جو انہیں عنایت ہوئے ہیں” ایک اور جگہ قرا ن ِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کو ان(جانوروں) کے گوشت  اور خون نہیں پہنچتے البتہ تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ کا ذکر کرکے ارشاد فرمادیا کہ قربانی کے بارے میں تمہارا خلوص اور تقویٰ دیکھا جائے دل میں خلوص اور عمل میں تقویٰ کا رنگ جتنا زیادہ ہوگا بارگاہِ ربوبیت میں قربانی کا شرف اتنا ہی زیادہ نصیب ہوگا لہذا خلوص اور تقویٰ کے متعلق ہر ممکن کوشش کرو ترمذی میں ہے کہ عاقل وہ ہے جو خدا کے لئے تقویٰ کرے اور اپنے نفس کا حساب لیتا رہے اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے بڑائی تقویٰ میں دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں  ہے اور حضرت امام حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ دنائیوں میں اعلیٰ درجے کی دانائی تقویٰ ہے اور کمزوریوں میں سب سے بڑی بد اخلا قی اور بدا عمالی ہے ۔ اسلام میںحرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ماہِ مبارکہ ذی الحجہ کا بھی  ہے اور ذیالحجہ اسلامی سال کے مہینوں میں بارہویں مہینے کا نام ہے بے شک اس ماہِ مبارکہ میں عبادت و ذکر و ازکار کا رب کائنات اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اجر و ثواب کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس با برکت مہینے میں اللہ رب العزت اپنے  نیک بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے بالخصوص اس ماہِ مبارکہ کا شروع کا عشرہ ( پہلے دس دنوں ) کی فضیلت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ رب کائنات نے ان ایام کو قرآن مجید فرقانِ حمید میں ”ایام معلومات” کہہ کر مخاطب کیا ہے ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ  اور اللہ کا نام لیں ، جانے ہوئے دنوں میں ” حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”اور دس راتوں کی قسم اس سے ذی الحجہ کی راتیں مراد ہیں ” حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد مبارکہ ہے ” اس شخص کے لئے ہلاکت ہے  ، جو ان دس دنوں کی بھلائی سے محروم رہا اور نویں ذی الحجہ کے روزے کا خیال رکھو کہ اس میں اس قدر بھلائیا ں ہیں جن کا شمار نہیں ” ایک اور روایت ہے کہ حضور پرنور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ” جس وقت عشرہِ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے یعنی کہ بال نہ کتروائے اور نہ ناخن کٹوائے ! اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو نہ  بال منڈوایا اور نہ ناخن ترشوائے ” پیارے محمدمصطفی ۖ نے  حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کرارشاد فرمایا ”قربانی کے جانور کے پا س کھڑی ہو اس لئے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرگا تو اس کا عوض تمہارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ” آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ایک اور ارشاد گرامی ہے ”جس شخص نے قربانی کرنے کی وسعت پائی پھر بھی قربانی نہیں کی بس وہ ہماری عید گا ہ میں نہ آئے ” حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت  آئے گا اور بے شک اس کا خون زمین سے گرنے سے پہلے  ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتا ہے بس دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کیا کرو ”صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کیا ”یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ قربانی کیا شے ہے ”۔تو پیارے محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے با پ حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی سنت ہے ” اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا ” یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تو اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا ” تاجدار مدینہ سکونِ قلب و سینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ”ہر بال کے عوض ایک نیکی” صحابہ نے پھر عرض کیا ” یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مینڈھا ہو ؟ ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ارشاد فرمایا ”تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی ” اسی طرح پیارے محمدمصطفی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے ارشاد فرمایا ”جس شخص نے دل کی خوشی کے ساتھ اور طلبِ ثواب کے لئے قربانی کی وہ قربانی اسکے لئے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوگی”۔ یوں یہ مہینہ نہایت ہی عظمت اور مرتبے والا ہے اس کا چاند(ہلال) نظر آتے ہی ہر قلب میں اس عظیم و الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال تاریخ انسانی آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے بے شک یہ ماہِ مبارکہ اصل میں اس جلیل و قدر پیغمبر کی یادگار ہے  جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثا ل تصور تھی یہ جدالانبیا خلیل اللہ حضرت ابراہیم  علی  نبیناعلیہ الصلوة السلام  ہیں آپ یہ اندازہ کریں کے وہ کون سا امتحان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ابراہیم علیہ السلام ) سے نہیں لیا مگر آپ کی ذاتِ والا صفات پر کسی میدان میں بھی پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی یہ بھی حقیقیت ہے کہ  دو چیزیں دنیامیں انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں ایک اپنی جان اور دوسر ی اپنی اولاد مگر کروڑ روں ، اربوں اور کھربوں سلام ہوں حضرت ابراہیم  علیہ السلام  پر کہ آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی اور تقویٰ کا وہ عظیم الشان  مظاہر ہ کیا کہ جب نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور حضرت خلیل اللہ علیہ السلام  کو گو پئے میں ڈال کر ہلا یا جا رہا ہے۔ منجنیق کے زریعے پھینکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں کفر خوش ہے کہ آج کے بعد ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہیں ہوگا مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوا جاتا ہے تو ادھر حضر ت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”اے اللہ کے بندے پیارے خلیل   علیہ السلام ! کوئی حکم کوئی حاجت ؟ اس کے جواب میں حضر ت خلیل اللہ فرماتے ہیں اما الیک فلا ترجمہ ”تیرے ساتھ کوئی حاجت نہیں ” اور پھر جبرائیل علیہ السلام  نے عرض کی اچھا تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کیجئے  کے مجھے آگ میں ڈالا جا رہا ہے ”۔ آپ خلیل اللہ  علیہ السلام نے فرمایا ” جانتا ہے وہ میرا رب ِ جلیل آگ میں پڑتا ہے اس کا خلیل اسے کیوں کہوں ؟ کیا وہ سمیع و بصیر نہیں ہے؟ یہاں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ عقل نے اس موقعے پر حضر ت ابراہیم  سے مخاطب ہوکر کہا  ہوگا کہ  ابراہیم جان بڑی عزیز شے ہے جو ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں ملتی اس کی حفاظت کرو       عقل بولی کہ بڑی شے جان ہے  عشق بولا کے یار پر قربان ہے حضر ت علامہ اقبال  اس واقعے اورتقویٰ سے متعلق فرماتے ہیں  بے خطر کود پڑ ا ا تش نمرو دمیں عشقعقل ہے محو تماشا نے لب ِبام ابھی  حضر ابراہیم علیہ السلام  نے عقل کی دلیل کو یکسر رد کرتے ہوئے عشق الہی میں آگ میں چھلانگ لگا دی تب اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم کو دیا ترجمہ اے آگ ! میرے ابراہیم   علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجا واور سلامتی والی ہوجا ” رب تعالیٰ کی جان کی ازمائش اور امتحان کے بعد ربِ کائنات کی جانب سے دوسرا بڑا اور سب سے کٹھن امتحان ہونے والا تھا اور وہ اولاد سے متعلق  تھا اور یوں بھی جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے انتہائی اختصار کے ساتھ رب کائنات اللہ  تعالیٰ کی جانب سے  حضرت ابراہیم   پر دوسرا امتحان شروع ہوا اور اس میں بھی وہ ثابت قدمی سے پورے اترے اور ایسے اترے کہ رتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہے وہاں تک سبزہ کا نام و نشان تک نہیں یہ اللہ کے پیارے خلیل اللہ اپنے لختِ جگر حضرت اسمعیل  کو جو ابھی والدہ کی گود میں ہیں ان کی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت  اس وادی میں چھوڑ جا رہے ہیں حضرت ہاجرہ نے عرض کیا حضور یہ کس جرم کی سزا ہے آپ خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دیا پھر کچھ دیر بعدحضرت ہاجرہ خود بولیں کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر اس پر خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہاجرہ یہ اللہ کا ہی حکم ہے اتنا سننے کے بعد حضر ت ہاجرہ نے فرمایا تو پھر ہمیں کوئی غم نہیں اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا ” کچھ دور جا کر حضرت خلیل اللہ نے دونوں  ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے اور عرض کی ”انے میر ے رب میں نے اپنی اولا د ایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب  ! اسلئے کے وہ نماز قائم رکھیں تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان فرمائیں ” حضرت خلیل اللہ نے یہ تین دعائیں کی روایت میں آ تا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے حضرت اسمعیل  کو جب اس بے آب  و گیاہ مقام پر اللہ تعالی ٰ کے سپرد چھوڑے جا رہے تھے تو وہ اس وقت چلتے چلتے پانی کا ایک مکشیزہ  ان کے نزدیک رکھ گئے تھے اور یہ  مختصر  سا کھا نا پانی آخر کب تک چلتا بالا خر ختم ہی ہوگیا تو حضرت بی بی ہاجرہ کو  شدید تشویش ہوئی کہ ان کی گود میں معصوم پھول سا ننھا منا سا بچہ تھا وہ بچے کو پیارے سے دیکھتیں تو جی بھر آتا دوردور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ ان سے بچے کی پیاس دیکھی نہ گئی وہ شیر خوار بچے کو زمین پر لیٹا کر اس کے لئے پانی کی تلاش میں بے قرار ہو گئیں قریب ایک پہاڑی پر گئیں تاکہ انہیں کہیں سے پانی مل جائے مگر بے سود پانی کہیں نظر نہیں آ یا اور پھر واپس بچے کے پاس آئیں تو بچے کا پیاس  سے برا حال تھا پھر دوسری پہاڑی پر چڑھیں مگر وہاں بھی مقصد حاصل نہ ہو ا یہ دونوں پہاڑیاں جنہیں صفا اور مروہ کہا جاتا ہے وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دورتی رہیں یوں وہ(ہاجرہ) ان کے درمیان سات مرتبہ دوڑیں ۔ لیکن پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیااس دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے خلیل کی اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر جوش میں آگئی اور جب آخری مرتبہ حضرت بی بی ہاجرہ  بچے کے پاس آئیں تو عجیب منظر دیکھا کہ شیر خوار حضرت اسمعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے کے مقام سے وہاں پر پانی کا ایک صاف چشمہ جاری ہے حضرت بی بی ہاجرہ  کی اس پانی کے اچانک ظاہر ہونے سے خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ فوراً اللہ تعالی ٰ کا شکر بجا لائیں اور پھر خیال آیا کہ  اب اس بڑھتے ہوئے پانی کو  روکنا چاہئے چنانچہ بی بی ہاجرہ نے اس کے ارد گرد رکاوٹ بنائی پانی کو روکتے ہوئے حضرت بی بی  ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے زم زم (یعنی ٹہرجا ) کہہ کر بے تحاشہ بہتے  ہوئے پانی کے چشمے کو روک دیا۔ زم زم رک جانے کو کہتے مگر آ ج ہم زم زم اس پانی کو کہتے ہیں جسے دنیا کے کڑوڑ وں لوگ بطور تبرک پیتے اور لے جاتے ہیں اگر چہ اسے آج بہتے ہوئے چارہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے یہ چشمہ پہلے روز کی طرح  آج بھی جاری و ساری ہے اور اب تو اس پانی کو نکالنے کے لئے ٹیوب ویل جیسے جدید مشینری اور آلا ت بھی نصب کئے گئے ہیں۔اس پانی کو پینے والوں کا اتنا ہجوم رہتا ہے کہ باری نہیں آتی مگر اس متبرک چشمے سے مبارک پانی کبھی ختم نہیں ہوا تاقیامت جاری و ساری رہے گا پیارے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں کہ اگر حضرت ہاجرہ اس پانی کو زم زم نہ کہتی تو یہ پانی ساری کائنا ت کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئیکافی ہوتا یہی صفا و مروہ ہے جہاں حاجیوں کے لئے ضروری ہیکہ وہی طریقہ اختیار کریں جو حضرت ہاجرہ نے  کیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی سنت کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا پھر اللہ تعالی ٰ نے ان پہاڑوں کو شعائر اللہ قرار دیا اور پھر اس بے آب و گیاہ کے درمیان  زندگی کے اثار نمودار ہوئے اور آج یہ وادی حضرت ابراہیم  کی دعاؤں کی بدولت حسین و خوبصورت وادی میں تبدیل ہوگئی ہے آپ اندازہ کریں کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال گزر چکے ہیں مگر یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ  کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ جو فروٹ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتا وہ مکّہ شریف میں موجود ہے قلب میں کھچے چلے آتے ہیں ۔ اسی طرح جب حضرت ابراہیم  بلوغت کے قریب پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم  علیہ السلام  سے آ پ کی قربانی طلب فرمائی تین دن مسلسل خواب آتے رہے تیسری صبح آپ نے حضر ت ہاجرہ سے کہا کہ میں اور بیٹا اسماعیل  ایک دعوت میں جا رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ اسے تیار کردیں حضرت ہاجرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت اسمعیل   علیہ السلام  کو بہت اچھا لباس پہنایا اور تیار کردیا آپ نے چھری اور رسی لی جنگل کی طرف چل دئیے کعبہ شریف سے کچھ ہی دور پہنچے تو شیطان نے آپ کو اس قربانی سے روکنا چاہا سب سے پہلے  بی بی ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ اے ہاجرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو علم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام  اسمعیل علیہ السلام  کو کہاں لے گئے ہیں ؟ حضرت بی بی ہاجرہ نے کہا کہ ایک دعوت پر گئے ہیں ۔ تب شیطان بولا نہیں ابراہیم علیہ اسلام اسمعیل علیہ السلام  کو ذبح کرنے لے گئے ہیں حضرت بی بی ہاجر ہ نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیا ایک باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے شیطان نے کہا کہ ابراہیم کا خیال ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری راہ میں اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کردو اس پر حضرت خلیل اللہ کی اہلیہ اور حضرت اسمعیل  کی والدہ حضرت بی بی ہاجرہ نے ابلیس کو جواب دیا کہ میرے پروردگار کا یہی حکم ہے تو میں کون ہوں جو اس قربانی کی راہ میں رکاوٹ بنوں ۔ اللہ تعالی ٰ کے حکم پر تو ایک سو اسمعیل ہوں تو ایک ایک کرکے قربان کرتی چلی جاؤں اور اس جواب کے بعد شیطان مایوس ہوگیا تو پھر اس نے حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کو ورغلانا چاہاانکے قریب جا کر کہنے لگا تجھے تیرے والد ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں ۔حضرت اسمعیل  نے فرمایا کیوں شیطان نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہہں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے کہ اس پر حضرت اسمعیل  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمائے تو میں یہی کہوں گا کہ اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہوسکتی ہے شیطان نے ہر ممکن کوشش کی کہ حضرت اسمعیل علیہ اسلام کسی طرح سے اس قربانی سے رک جائیں مگر اللہ کے خلیل علیہ اسلام کے عزم کے آگے  بے بس ہوگیا اور ایک پہاڑ کے قریب لے جا کر  حضرت ابراہیم    علیہ اسلام  نے حضرت اسمعیل  سے کہا ”اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو ں بتا تیری کیا مرضی ہے سعادت مند بیٹے نے جواب دیا اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے بلا خوف ِخطرپورا فرمائیے مجھے آپ انشاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر ابلیس نے کوشش شروع کی کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو کہنے لگا کہ آپ  کیا غضب کررہے ہیں اے خواب کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے اے ملعون مجھ پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا ۔ میرا خواب شیطانی نہیں رحمانی ہے نبی کا خواب  وحی ِ الہی ہوتا ہے میں اللہ کے حکم سے ہر گز منہ نہیں موڑوں گا شیطان نے ہر طرف سے مایوس ہو کر سر پیٹ لیا ہائے اب کیا ہوگا جب باپ  اوربیٹا دونوں رضائے الہی سے راضی ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو زمین پر جبین کے بل لٹا دیا ۔ قرآن کریم ارشاد کرتا ہے ۔ ترجمہ ”دونوں تیار ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا ”چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے باپ کو کہا ابا جان میری تین   باتیں قبول فرمائیں پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باند ھ دیں تاکہ تٹپنے سے کوئی خون کا چھینٹا آپ کے لباس پر نہ پڑے دوسری یہ کہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ میری محبت کی وجہ سے رک جائے اور تیسری بات یہ کہ میرا خون آلود کرتا میری والدہ کے پاس پہنچا دیجئے وہ اسے دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرے گی باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم ِ فلک نے نہیں دیکھا ہوگا تیز چھری حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کے گلے پر پہنچ کر کند ہوگئی ۔ دو مرتبہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم علیہ اسلام  نے  اسے  ایک پتھر پر دے مارا پتھر کو چھری نے دو ٹکڑے کر دئیے ابراہیم علیہ اسلام نے چھری سے کہا تو نے پتھر جیسی سخت چیز کودو ٹکڑ کردئیے لیکن اسمعیل کا گلا ریشم سے بھی نرم تھا  چھری نے کہا ترجمہ ” خلیل اللہ کہتا ہے کاٹ مگر جلیل کہتا ہے خبرداد  جواسمعیل کا بال  بھی بیگا کیا ۔جب خلیل اللہ خود جلیل اللہ کا حکم مان کر لٹائے بیٹھا ہے تو میں کیسے انکار کر سکتی ہوں ابراہیم علیہ اسلام  نے فرمایا کہ میں قربان کرنے کے لئے اور میرا بیٹا قربان ہونے کے لئے تیار ہے تو توکیوں توکاوٹ بنتی ہے ابراہیم  علیہ اسلام  نے پھر چھری اٹھائی چھری حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کی گردن پر پہنچنے سے پہلے پہلے حضرے جبرائیل علیہ اسلام  ایک مینڈھا لے آئے اس کو نیچے رکھ دیا اور حضرت اسمعیل علیہ اسلام  کو اٹھا لیا مینڈھا ذبح ہوگیا تو آواز آئی ترجمہ ”اور ہم نے پکارا اے ابراہیم  ! تو نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں ۔ْ بیشک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اسے بعد والوں میں باقی رکھا ”ابراہیم علیہ اسلام کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اسے قیامت تک باقی رکھا اب ہر سال اس یاد کو تازہ کیا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا حقائق سے قربانی کی حقیقت خوب نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ قربانی سے مقصود رضائے خداوندی کا حص ول ہے قربانی کے ان مقاصد اور مطالب کے پیش نظر کوئی مسلمان بھی قربانی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا اور آج اغیار کل مسلمانوں  کے دلوں سے اسی جزبے قربانی کو نکلنا اور ختم کرنا چاہتا ہے کہ ان کے دلوں سے جذبے قربانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوںسے جذبہ قربا نی ختم کرنے کے لئے آزاد و روشن خیالی  کا ایک ایسا پودا اگا دیا ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ حکم خداوندی اور سنت ِ نب وی سے دور ہوتے جا رہے ہیں  جو کہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم حکم خداوندی کہ احکامات کی پیروی نہ کرکے زندہ رہ سکیں گے۔ تحریر : محمداعظم عظیم اعظم