قرعہ بالآخر راجہ پرویز اشرف کا ہی نکلنا تھا

Najeem Shah

Najeem Shah

مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے لیئے قرعہ خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجہ پرویز اشرف کے نام کا نکل آیا اور یوں وہ ملک کے پچیسویں وزیراعظم بن گئے۔ اس عہدے کے لیئے مخدوم شہاب الدین اور چوہدری احمد مختار انتہائی مضبوط اُمیدوار سمجھے جاتے تھے لیکن شاید چوہدری کو چوہدری اور مخدوم کو مخدوم قبول نہیں تھا۔

چوہدری احمد مختارکا تعلق چوہدری شجاعت حسین کی طرح گجرات سے ہے جبکہ مخدوم شہاب الدین کا تعلق سابق نااہل وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کی طرح جنوبی پنجاب سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چوہدری احمد مختارکو وزیراعظم بنائے جانے پر حکمراں جماعت کی سب سے بڑی اتحادی پارٹی ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مخالفت کی جبکہ مخدوم شہاب الدین کے نام پر سزا یافتہ اور نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو تحفظات تھے۔

صدر زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کی فرمائش پر چوہدری احمد مختار کو ڈراپ کر دیا جبکہ حکومتی اتحاد کے مشترکہ اُمیدوار کی حیثیت سے مخدوم شہاب الدین جیسے ہی کاغذات جمع کرواتے ہیں تو عدالت عالیہ راولپنڈی(ہائی کورٹ) ایفی ڈرین کیس میں اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیتی ہے اور اس طرح اگلے وزیراعظم کے لیئے اُن کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے جبکہ اُن کی جگہ اس فہرست میں قمر زمان کائرہ کا نام شامل کر دیا جاتا ہے لیکن بالآخر راجہ پرویز اشرف کے نام پر تمام اتحادی جماعتوں کا اتفاق ہو جاتا ہے۔

asif ali zardari

asif ali zardari

مخدوم شہاب الدین یہ اقرار کرتے ہیں کہ اُن کے خلاف سازش ہوئی ہے اور اگر وہ وزیراعظم کے اُمیدوار نہ ہوتے تو شاید وارنٹ گرفتاری بھی جاری نہ ہوتے۔ اُنہوں نے اس بات کا کھل کر اظہار نہیں کیا کہ یہ سازش پارٹی کے اندر سے ہوئی یا باہر سے البتہ وہ اپنے خلاف ہونے والی سازش کو جلد بے نقاب کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

مخدوم شہاب الدین اور چوہدری احمد مختار کے بعد قمر الزمان کائرہ وزارتِ عظمیٰ کے لیئے یقینا سب سے زیادہ فیورٹ سمجھے جاتے تھے لیکن یوں لگتا ہے کہ ق لیگ نے چوہدری احمد مختار کے بعد قمر الزمان کائرہ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تاکہ وہ وزیراعظم بن کر گجرات میں چوہدریوں کے ہم پلہ طاقت حاصل نہ کر لے۔ اسکی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب تک گجرات سے صرف چوہدری شجاعت کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پرویز مشرف دور میں وزارتِ عظمیٰ کے مزے چکھ چکے ہیں اور وہ قطعاً یہ نہیں چاہیں گے کہ گجرات ہی کے چوہدری احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ میں سے کسی اور کو یہ اعزاز حاصل ہو۔

یہ چوہدری احمد مختار ہی ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ عام اتخابات میں چوہدری شجاعت حسین کو تیرہ ہزار ووٹوں کی واضح برتری سے شکست دی تھی جبکہ دوسری طرف گجرات کی تحصیل لالہ موسیٰ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قمر الزمان کائرہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

Chaudhry Mukhtar Ahmad

Chaudhry Mukhtar Ahmad

حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین نے اپنے حریف چوہدری احمد مختار کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر نااہلی کی درخواست واپس لے لی تھی کیونکہ چوہدری شجاعت حسین نے گزشتہ عام انتخابات میں چوہدری احمد مختار سے شکست کے بعد اُن پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں تین سال نو ماہ تک زیر سماعت رہی۔اس درخواست کی واپسی کے صرف چند ماہ بعد ہی چوہدری احمد مختار نے آئندہ بھی چوہدری شجاعت کے حلقے سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا تھاجو یقینا چوہدری شجاعت حسین کو بہت ناگوار گزرا ہوگا جس کا بدلہ انہوں نے چوہدری احمد مختار کی وزارتِ عظمیٰ کے لیئے نامزدگی کے موقع پر لے لیا۔

بظاہر چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لیئے چوہدری احمد مختار کی مخالفت نہیں کی لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق چوہدری احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ کے ناموں کو وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدواروں کی فہرست سے نکالنے میں جہاں ق لیگ کے چوہدری برادران کامیاب ہوئے وہاں مخدوم شہاب الدین کے راستے کی رکاوٹ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی تھے۔

Raja Parwez Ashraf

Raja Parwez Ashraf

راجہ پرویز اشرف کا ماضی شفاف نہ ہونے پر نہ صرف حکومتی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین نے اُن کی نامزدگی پر اعتراض کیا بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس فیصلے پر حکمراں جماعت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور پلانٹ کے کیس میں کورٹ تک لے جانے والے مسلم لیگ ق کے ممبر قومی اسمبلی فیصل صالح حیات نے بھی اُنہیں ووٹ نہ دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا تھا لیکن مخدوم شہاب الدین کے خلاف ایفی ڈرین کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے جبکہ چوہدری احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ پر اتحادی جماعت ق لیگ کے چوہدری برادران کے تحفظات کے بعد حکومت کے پاس صرف راجہ پرویز اشرف ہی باقی رہ گئے تھے کہ جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے لیئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔

راجہ پرویز اشرف نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں گے لیکن گجرات کے چوہدری برادران نے چوہدری احمد مختار اور قمر الزمان کائرہ کا راستہ روکنے کے لیئے اپنی ہی پارٹی کے فیصل صالح حیات کے اعتراض کو بھی پس پشت ڈال کر راجہ پرویز اشرف کے ناممکن خواب کو بھی ممکن بنا دیا ورنہ حکومت کے کسی بھی ”نامناسب” فیصلے کی صورت میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ میں انتخابی اتحاد خطرے میں پڑھ سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوٹھوہار کے راجہ گجرات کے چوہدریوں کی وجہ سے پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر راج کر رہے ہیں۔

راجہ پرویز اشرف ہوں یا کوئی اور دراصل سب نام علامتی ہی ہیں اور اصل وزیراعظم توآصف علی زرداری ہیں کیونکہ جب تک زرداری صاحب سے وفا اور وابستگی نہ ہوگی کوئی وزیراعظم بھی جیالوں کی نظر میں سیاسی غازی یا سیاسی شہید کہلانے کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ راجہ صاحب کی راج دہانی میں یوں تو سب کچھ ہے بس وہ نہیں جس کی اس قوم کو ضرورت ہے۔ موصوف جتنی جلدی ”راجہ اندھیر اشرف” سے ”راجہ رینٹل” بنے سو فیصد یقین ہے کہ وزارتِ عظمیٰ میں اس سے بھی بڑا نام پیدا کرینگے۔ جس ”کامیابی” سے اُنہوں نے وزارتِ بجلی و پانی کو چلایا ہے اُمید ہے وہ اس سے زیادہ ”کامیابی” سے وزارتِ عظمیٰ کو بھی چلائیں گے۔

راجہ صاحب کو پوری قوم مبارکباد پیش کرتی ہے کہ وہ بہت جلد ”وزیر پانی و بجلی ”سے ترقی کرکے ”وزیر آئی ٹی ”اور پھر ”وزیراعظم ”بن گئے ورنہ جس طرح وہ وزیر پانی و بجلی رہ کر ملک سے قومی بیماری لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں ”کامیاب” ہوئے ہیں، اُن کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی بننے پر قوم یہ اُمید بھی رکھتی تھی کہ راجہ صاحب یقینا31دسمبر 2012ء تک پاکستان سے آئی ٹی کا بھی خاتمہ کر دینگے لیکن ایسا موقع آنے سے پہلے ہی وہ ترقی کرکے وزیراعظم بن گئے۔

پیپلز پارٹی کے پونے پانچ سالہ دور میں حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اب کوئی راجہ، مہاراجہ ہو یا بادشاہ سلامت، لگتا ہے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے البتہ چوں کہ الیکشن قریب ہیں اس لیئے راجہ صاحب قوم کو ”بریکنگ نیوز” دے کر اپنے اوپر لگنے والا داغ دھو سکتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد قوم کے مقدر میں پھر اندھیرا ہی ہوگا۔سنا ہے کہ اکتوبر یا نومبر کے بعد لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی کیونکہ قرض لے کر آئی پی پیز کو دیا جائیگا اور یہ قرض آنے والی حکومت کو دینا ہوگا۔

PPPakistan

PPPakistan

یعنی فائدہ پیپلز پارٹی کی حکومت اُٹھائے گی اور قیمت نئی حکومت کو دینی پڑے گی جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ ایک دو ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی دس سے بیس روپے تک ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ ”سابق” کی طرح ”موجودہ” وزیراعظم پر بھی چونکہ سوئس حکام کو خط لکھنے کی تلوار لٹک رہی ہے اور اگر وہ سپریم کورٹ کے ”معیار” پر پورا نہ اُترسکے تو کسی بھی وقت نااہل ہو سکتے ہیں، اس لیئے وہ اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جلدی سے کچھ عوامی فیصلے بھی کر ڈالیں تاکہ نااہلی کی صورت میں کم از کم حلقے کے عوام تو اُن سے منہ نہ موڑیں۔

سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھنے والے گیلانی صاحب اپنی ”نااہلی” سے پہلے ہی ”سرائیکی صوبے” کا تحفہ دے چکے ہیں،اب خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجہ صاحب کو بھی چاہئے کہ وہ جلد از جلد ”صوبہ پوٹھوہار ”بنا ڈالیںاور اگر مخدوم شہاب الدین وزیراعظم ہوتے تو یقینا ”صوبہ بہاولپور” بھی بن جاتا۔ تحریر: نجیم شاہ