مذاق تو اڑے گا، جھوٹ اور ضد کی بھی کوئی حد ہوتی ہے

Gilani

Gilani

وزیراعظم صاحب مذاق تو اڑے گا بات ہی جب ایسی ہے ارے بھئی، جھوٹ اور ضد کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے ٹھیک ہے جھوٹ بھی اتنا ہی بولا جائے جتنا جھوٹ لگے اور ضد بھی اتنی ہی کی جائے جتنی برداشت اور آسانی سے ہضم کی جاسکے مگر اب ایسابھی نہیں کہ دنیا اِس کا مذاق ہی اڑاناشروع کردے جیسے یہ بات جو ہم اگلی سطور میں بیان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ شاید حکمرانوں، سیاستدانوں اور ملک وعوام کو ذرابھر میں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بے وقوف بنانے اور اِنہیں چٹکی پرنچانے والے ہمارے صدر، وزیراعظم ، وزرااور سیاستدانوں کے لئے تو لمحہ فکریہ نہ ہومگر ہمیں اِس کا پورا یقین ہے کہ یہ کسی محب وطن پاکستانی کے لئے ضرور ِ افسوسناک بات ہوگی ایک طرف کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کا بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے تو دوسری طرف ہمارے سزایافتہ مگر ضدی وزیراعظم اپنے 90ہمنواوں کوقومی خرچے پر لندن دورے پر لے گئے ہیں ملک میں بجلی کے ستائے ہوئے مشتعل ہیں اور وزیراعظم چین کی بانسری اٹھائے دیارِ غیرمیں دردر کی خاک اپنی آنکھوںاور سر میں ڈالنے مصروف ہیں ہم اپنی اِسی بات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ہاں تو قارئین حضرات، خبریہ ہے کہ برطانوی میڈیا نے اِدھرلندن کے دورے پر آئے ہوئے دنیاکے ایک ایسے ملک جس کی آبادی 19 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور جہاں کے عوام کی اکثریت خطِ غربت کو گلے لگائے ہوئے ہے اور یہی دنیاکا یقینی طور پر وہ واحد غریب ملک ہے جس کی آبادی کا پوراکا پورا حصہ بجلی، گیس، خوراک ، صحت و تعلیم، پرآسائش سفری سہولتوں اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی اِن سطور کے تحریر کرنے تک محروم ہے اور آج بھی جس کے زیادہ تر شہراور گاوں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں اوراِن لمحات میںجب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں اِسی بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام سڑکوں ، محلوں اور بازاروں میں ا حتجاجوں میں مصروف ِعمل ہیں ا ور یہی دنیاکا وہ ملک بھی ہے جس کے کارخانے بجلی اور گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے کئی سالوں سے بند ہیںاور جن کے بندرہنے کی وجہ سے ملک میں جہاں بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہیں اِس کی وجہ سے دیگر جرائم کا تناسب بھی تیزی سے بڑھتاجا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک غیریقینی کی صورت حال سے دوچارہے اِن تمام خامیوں کے باوجود مگر دنیا کا یہ ایٹمی ملک پاکستان جسے آج کئی مسائل اور بحرانوں نے گھیر رکھا ہے اور اِسی ملک کی اپنی ہی سپریم کورٹ سے سزا یافتہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جو لندن دورے پر آئے ہوئے ہیں اور اِن دنوں لندن میں اتنہائی مصروف ایام گزار رہے ہیں اِنہیں اور اِن کے وفد میں شامل افراد کو دیکھ کر برطانوی میڈیا نے وزیراعظم سمیت دیگر پاکستانی سیاستدانوں کے مالی اثاثوں کا مذاق اڑانابھی شروع کر دیا ہے۔

آج برطانوی میڈیا چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے وزیراعظم گیلانی کے مہنگے ترین اور قیمتی ملبوسات دیکھ کر کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ کسی غریب ملک کے ایسے غریب بے چارے پاکستانی وزیراعظم ہیں کہ جن کے پاس اپنی ذاتی کار تک نہیں ہے، پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹیکس وصول کرنے والے ممالک میں سے ایسا ملک ہے جہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر سرے سے رائج ہی نہیں ہے ، اور اِسی کے ساتھ ہی یہاں برطانوی میڈیا یہ بھی لکھتا ہے کہ پاکستانی حکمران، سیاستدان ایسے ہیں جو پاکستا ن ہی سے دولت بناتے ہیں اوراپنے ہی عوام اور ٹیکس کی وصولی والے اداروں سے اپنی دولت چھپانے میں عجب مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے میں اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس ملک میں حکمران عوام سے لوٹ گھسوٹ اور چھیناجھپٹی میں مصروف ہوں اور اپنے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے عیاشیوں اور موج مستی میں مگن ہوں اور اپنی دولت بڑھانے کے چکر میں پڑکر غریبوں کواِن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھیں تو پھر ایسے ملک کے حکمرانوں کو کوئی کس طرح قابلِ اعتبار تصور کرے گا اور ایسے حکمران جو اپنی ہی سرزمین میں رہ کردودنی چار کررہے ہوں اور ٹیکس کی ادائیگی کے ڈر سے اپنی دولت چھپانے کی بھی مہارت برکھتے ہوں تو بھلا ایسے حکمران اپنے ملک اور قوم کے لئے کیا کار آمد ثابت ہوں گے کیا ایسے ملک کے عوام کو اپنے حکمرانوں کو خود پر مسلط رہنے کی مزید مہلت دے دینی چاہئے یا اِن کا کڑااحتساب کرنے کے لئے اِنہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کے لئے اپنے اندر انقلابی تحریک متحرک کرلینی چاہئے اگر عوام ایسا نہیں کرسکیں تو پھرکیا یہ اپنی حیثیت نالی کے اس کیڑے سے زیادہ نہ سمجھیں جس کا مقدر ہمیشہ نالی ہی رہتی ہے۔

بہرحال، بظاہر خود کو ایک سیدزادہ کہلانے اور قدم قدم پر قانون کی بالادستی اورقانون کے استحکام کے لئے متحرک رکھنے میں فخرِ عظیم کا درجہ پانے والے ہمارے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے ماضی کے دینی، اخلاقی، سیاسی ، معاشی اور 26اپریل کی صبح ساڑھے نو بجے سے قبل تک اِن کے جتنے بھی اچھے اور فلاحی کارنامے کیوں نہ رہے ہوںوہ اپنی جگہہ ایک مصمم حقیقت کا درجہ ضرور رکھتے رہے ہوں گے مگر ہم یہاںیہ بھی ضرور کہنا چاہیں گے کہ اب اِن کی اِن خوبیوں سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے۔

ہاںالبتہ یہاںیہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اِنہیں سپریم کورٹ سے دنیاکی اِنتہائی قلیل ترین تیس بتیس سیکنڈکی رائی کے دانے سے بھی چھوٹی صحیح سزایاملنے کے بعد بھی یوسف رضاگیلانی کابحیثیت ایک سزایافتہ وزیراعظم وزارتِ عظمی کے عہدے پرایک ضدی سیاسی کھلاڑی کے طور پر ڈٹے رہنا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے اِس کی وجہ بھی اب کسی سے ڈھکی چھپنی نہیں ہے اورآج اِن کی اِس ضد ہی کی وجہ سے ہی اِن کی حیثیت اور ذات کے سارے قابلِ فخر اور قابلِ تعریف کارنامے بھی صفر ہو کر رہ گئے ہیں۔

ایسے میں ہمیں شیخ سعدی ی کایہ قول یا د آ گیا ہے حضرت فرماتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ جو آدمی بظاہرنیک ہو اِس کی سیرت بھی اچھی ہومعاملے کا تعلق باطن سے ہے نہ کہ چھلکے سے اوراِنسانی تاریخ میں ایسے بھی لوگ ضرور گزرے ہیں جن سے متعلق اچھوں کا یہ خیال رہا ہے کہ کتنابراہے وہ اِنسان جو اِس بات کی پرواہی نہ کرے کہ لوگ اِسے براکہتے ہیںاورکیا آج بھی اِس 21ویں صدی میں ایسے اِنسانوں کی مثال سیکڑوں ، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں ، اربوں اور کھربوں میں موجود نہیں ہے جولوگ کی باتوں کی پروا کئے بغیر ہی اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں اور برے کہلاتے ہیں اور اِن کی حیثیت ریشم کے ان کیڑوں کی سی ہوکرجاتی ہے جو اپنے گردریشم کے تاربنتے ہیں اور بنتے ہی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ریشم کے کفن میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس کے اندر ہی اپنا دم توڑ دیتے ہیں یکدم اس طرح گناہ گار برائیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور بالآخر اِن کا انجام بھی ریشم کے کیڑے جیساہو جاتاہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم خود کو کیاثابت کرناچاہیں گے یہ تو اِن کے لند ن سے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ یہ اپنے لئے کیا فیصلہ کرتے ہیں اور خود کو اِس حوالے سے کیا بن کر پیش کرنا پسند کریں گے۔

مگر اِن کی آمد سے قبل صدرمملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری نے توایوانِ صدر میں اے این پی کے سینیٹرز سے اپنی ایک خصوصی ملاقات کے دوران گفتگوکرتے ہوئے جیسے وزیراعظم کی وکالت ہی کرڈالی ہے اور انہوں نے بلا روک ٹوک یہ واضح کردیاہے کہ وزیراعظم توہین عدالت کی سزاکے خلاف اپیل پر فیصلہ آنے تک اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیںنہ صرف یہ بلکہ انہوں نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے ردعمل میں آئینی و جمہوری راستے اختیار کریں گے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اتحادیوں کی سیاسی بصیرت ، بالغ نظری قابل ستائش ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اِس کے بعد یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ صدر کے فرمان کے ساتھ ہی وزیراعظم کی سزا کا سپریم کورٹ سے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ملک کے طول ارض میں جو ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے وہ صدرمملکت جناب آصف علی زرداری کے اِس بیان کے بعد یقینی طور پر ختم نہیں بلکہ بڑھ تو ضرور جائے گا۔

جبکہ ادھر پیپلز پارٹی کے اکثر رہنماوں نے بھی اپنے سینے چوڑے کرکے یہی موقف اپنالیاہے اور اِن سب کا بھی پبلک مقامات اور اجتماعات اور میڈیا پر یہ کہنا ہے کہ تفصیلی فیصلے میں نااہلی کا ذکر نہیں ہے اور وزیراعظم گیلانی اپیل کے فیصلے تک کسی بھی صورت میں استعفی نہیں دیں گے اوراکثر پیپلزپارٹی کے رہنماوں کا یہ بھی کہنا ہے جو لوگ وزیر اعظم کی سزا کو نااہلی کی وجہ بناکرجمہوریت کو افراتفری کی نذرکرناچاہتے ہیں اِنہیںکچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ایسے میں آج ملک میں جاری سیاسی بحران نے جو شکل اختیار کرلی ہے اِس سے شاید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو جو اِس سے انکار کرکے اس حقیقت سے منہ چرائے جو صدر کی حمایت میں عدلیہ کی حکم عدولی کا طوق اپنے گلے میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ڈال چکے ہیں اور اِس پر سینہ زوری یہ کہ اپنی کچن کابینہ کے اراکین سمیت نوے افراد پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ یہ اِن دنوں تزک واحتشام کے ساتھ لندن کے دورے پرگئے ہوئے ہیں اِن کے اِس انوکھے دورے سے متعلق سیاسی تجزیہ و تبصرہ نگاروں کیا ایک خام خیال یہ ہے کہ اِس دورے میں اکثریت کا خرچ قومی خزانہ اٹھائے گا جو اِس بات کی بھی کھلی دلیل ہے کہ چار سالوں میں صدراور وزیراعظم اور دیگر حکومتی وزرااور اراکین پارلیمنٹ نے ملک اور مسائل میں گھری عوام کو بجلی، گیس اور دیگر بحرانوں سے نجات دلانے اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لئے شاید اتنے دورے نہیں کئے ہوںگے جتنے اِنہوںنے اپنے سیر سپاٹے اور عیاشیوں کے خاطر بہت سے غیر ملکی دورے کئے ہیں۔

ایسے میں کیا ملک کی غریب اور مفلوک الحال عوام یقینی طور پر یہ تصور نہیں کریں گے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوںکے نزدیک نہ تو ملک مقدم رہاہے اور نہ پریشان حال عوام کی اِنہیں کوئی فکر ہے اگر آج ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کوئی فکر لا حق تو وہ یہ کہ قومی خزانے کو کس طرح اپنی عیاشیوں اور موج مستی کرکے خالی کیا جائے جس میں قیمتی ملبوسات کا زیب تن کرنا سمیت اور عیاشیوںکے لئے بہت سی راہیں کھولنابھی ہے چاہئے یہ غیر ملکی دورے ہی کیوں نہ ہوں مقصد عیاش کرنا ہونا چاہئے۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم